زندگی ۔ عمر اور راہنما

23

منشا قاضی
حسب منشا

زندگی دس گیئر والی گاڑی جیسی ہوتی ہے ہم میں سے بہت سے لوگ کچھ گیئر زندگی بھر استعمال نہیں کر پاتے سقراط سے پوچھا گیا کہ موت سے بھی سخت تر کوئی چیز ہے جواب دیا کہ زندگی کیونکہ ہر قسم کے رنج و آزار اور مصیبتیں زندگی میں ہی برداشت کرنی پڑتی ہیں اور موت ان سے نجات دلاتی ہے زندگی سے ہمیشہ خوش رہو کیونکہ یہ آپ کو محنت کرنے ۔ کھیلنے اور روشن ستارے دیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہے زندگی کی مالا میں ایسے قیمتی موتی جمع کرو جن کی چمک سے سارے جہاں میں روشنی پھیل جائے زندگی کو یہ سمجھ کر بسر کریں کہ اس میں کچھ حصہ دوسروں کا بھی ہے زندگی کے چند لمحے دوسروں کی بھلائی کے لیے وقف کر دینا بہت بڑی نیکی ہے زندگی بغیر محنت کے مصیبت اور بغیر عقل کے حیوانیت ہے زندگی تجسس کے بغیر بے کار ہے اور زندگی کا ہر ایک دن آپ کی تاریخ کا ورق ہے اور آج ہم نے اپنی زندگی کا یہ دن گورنر ہاؤس کے دربار ہال میں نسل نو اور اقبال کے حوالے سے بڑا تابناک ۔ بڑا روشن ۔ بڑا امید افزا اور یقین سے مالا مال بسر کیا یقین ہمیشہ صدیق پیدا کرتا ہے شکوک و شبہات نے ابو جہل پیدا کیئے ہیں ۔ دربار ہال میں ہم نے زندگی کرنے والوں کو ایک کامیاب کامران اور بہترین انسان پایا کیونکہ جو لوگ زندگی کو ایک مقدس فریضہ سمجھ کر بسر کرتے ہیں وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے ۔ نسل نو اور اقبال کے مصنف جناب ایم اے قریشی کی تصنیف اور اس کی تقریب رونمائی گورنر ہاؤس کے دربار ہال میں ہوئی ۔ مہمان خاص عزت مآب جناب محمد بلیغ الرحمن گورنر پنجاب تھے جو ایک بہترین رہنما کے اوصاف حمیدہ سے متصف ہیں ۔ سیاست دانوں کے بارے میں تو ہم نے سن رکھا ہے کہ وہ آنے والے انتخابات کے بارے میں سوچتے ہیں لیکن راہنما آنے والی نسلوں کی اصلوں کی فصلوں کو شاداب کرتا ہے ۔ محمد بلیغ الرحمان کو فیض کی نظر نے بلندی اور رفعت عطا کی ہے جس نے آپ کی زندگی کا زاویہ بدل کر رکھ دیا ہے ۔ نسل نو بزرگوں کی فیض کی نظر سے محروم کیوں ہے ۔ اس لیئے وہ تربیت سے محروم ہے ۔ رشید احمد صدیقی نے کہا تھا کہ میں جب نوجوانوں کو گستاخ اور بدتمیز دیکھتا ہوں تو میری اپنی جوانی کے روشن آیام تاریکی میں ڈوب جاتے ہیں ۔ داناوں اور بیناؤں کے جھرمٹ میں آج کا یہ تہوار زندگی کا خوبصورت دن قرار پایا ۔ ہیرلڈکشر نے کہا تھا کہ میں زندگی کو ایک ایسی کتاب خیال کرتا ہوں کہ جیسے جیسے اس کتاب کے اوراق آپ پلٹتے جائیں ویسے ویسے انسان شعور کی گہرائیوں میں اترتا جاتا ہے نسل نو اور اقبال کے مصنف جناب ایم اے قریشی نے لارڈ بائرن کے اس قول کو حرز جاں بنا لیا ہے کہ میں نے زندگی کو بے مقصد چیز سمجھ کر ضائع نہیں ہونے دیا زندگی اس طرح بسر کرو کہ تمہاری موت نا انصافی بن جائے اور محسن نقوی پکار اٹھے کہ

عمر اتنی تو عطا ہو میرے فن کو خالق

میرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے

عمر سو کر گزرتی ہے زندگی جاگ کر گزارنی پڑتی ہے اور اگر تم زندہ ء جاوید رہنا چاہتے ہو ہمیشہ زندہ رہنا چاہتے ہو تو پھر تم اپنی زندگی قوم کے لیے وقف کر دو زندگی اتنی چھوٹی بھی نہیں ہوتی کہ انسان کو اچھے کام کرنے کا موقع نہ مل سکے جب زندگی گزر رہی ہوتی ہے تو ہم اس کی طرف نہیں دیکھتے جب گزر جاتی ہے تو پھر ہم اسے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ماہرین اقبالیات دربار ہال میں پورے وقار اور افتخار کے ساتھ جلوہ افروز تھے اور ایک با مقصد زندگی کا تصور سب کا مشن تھا ۔ گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے نسل نو اور اقبال کے افکار و نظریات کے پرچارک ایم اے قریشی کی شاندار خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور انہیں اپنے دست مبارک سے گولڈ میڈل دیا اس سے پہلے برگیڈیئر ڈاکٹر وحید الزماں طارق نے اپنے دست مبارک سے گنج بخش ایوارڈ گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن کی شاندار خدمات کے اعتراف میں دیا ۔ تاریخ کے اوراق اپنے دامن میں ہمیشہ خدمت کرنے والوں کے نام زندہ رکھتی ہے ۔ حکومت کرنے والوں کے نام اسی صورت تاریخ اپنے رخ تاباں پر تاباں رکھتی ہے اگر ان کے دل میں عوام کی خدمت کا جذبہ موجود ہو اور وہ خدمت کو عبادت سمجھتے ہوں ۔گورنر پنجاب جناب محمد بلیغ الرحمن نے کہا کہ دنیا کے تمام علوم و فنون میں آپ پوری مہارت بھی رکھتے ہوں کامیابی یقینی نہیں ہو سکتی جب تک آپ تربیت اور فیض کی نظر سے مالا مال نہ ہو ں دنیا کے سارے علوم آپ جان لیں اور تہذیب و شائستگی کی دولت سے محروم ہو جائیں تو آپ کامیاب نہیں کہلا سکتے گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ اس وقت علوم کے حصول کی کمی نہیں ہے اگر کمی ہے تو تربیت کی ہے فیض کی نظر کی ہے گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے علامہ اقبال کے افکار و نظریات کی روشنی میں نسل نو کی کردار سازی کی ضرورت پر زور دیا ایران جرمنی اور ترکی میں اقبال شناسی کی آب جو بہہ رہی ہے اور ہمارے پاس علامہ اقبال کے افکار و نظریات کا بحر بے کراں موجود ہے گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے کہا کہ ایران تو علامہ اقبال کو اقبال لاہوری کے نام سے یاد کرتا ہے گورنر بلیغ الرحمان نے کہا کہ مجھے اچھا لگا کہ یہاں پر سارے اقبالیات کے ماہرین زندگی گزار رہے ہیں عمر بسر نہیں کر رہے کیونکہ عمر سو کر گزرتی ہے اور زندگی زندہ دلی سے جاگ کر گزارنی پڑتی ہے ۔ نسل نو اور اقبال کے مصنف ایم اے قریشی نے گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ میری تصنیف کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور گورنر بلیغ الرحمان نے جس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے وہ میرے لیے متاع گراں بہا ہے ماہر اقبالیات برگیڈیئر ڈاکٹر وحید الزماں طارق نے فقر درویشی اور قلندری کے اوصاف حمیدہ بیان کرتے ہوئے بادشاہی اور ملوکیت کے محلات کو نذر آتش کر دیا ۔ آپ نے اقبال کے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت ذہنی بالیدگی تدریس میں درپیش مشکلات فکری رہنمائی اور قومی تعلیمی اداروں کی ذمہ داری پر بات کی اور کہا قس مقام پر جہاں میں کھڑا ہوں یہاں کبھی فارسی پھر انگریزی اور اب اردو بولی جا رہی ہے ۔ برگیڈیر ڈاکٹر وحید الزماں طارق نے فارسی زبان کی اہمیت پر زور دیا اور اس کی تدریس کی تجویز پیش کی تاکہ اقبال کے کلام کو براہ راست سمجھا جا سکے اقبال کے مخاطب نوجوان ہیں اور جاوید نامہ کا آغاز اور اختتام ہی جوانوں کے نام اور ان کے لیے دعائیہ اشعار سے ہوتا ہے اقبال کی فکری اور عملی توازن کی بابت برگیڈیے ڈاکٹر وحید الزماں طارق نے کہا کہ اقبال کے اس شعر کی جانب توجہ دلوائی جس میں دین و دنیا کے علوم پر زور دیا گیاہے

خرد افروز مرا درس حکیماں فرنگ ۔

سینہ افروخت مرا صحبت صاحب نظراں

ترجمہ میری عقل میں اضافہ فرنگ کے فلسفہ کے اساتذہ نے کیا اور میرے سینے کو صاحب نظر بزرگوں نے روشن کیا اس شعر کے تناظر میں اقبال کی فکر کی وضاحت میں برگیڈیئر صاحب نے صاحب نظر بزرگوں کی بابت اپنی کتاب کا حوالہ دیا ۔ برگیڈیر صاحب نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اقبال کے کلام کہ مخالفین بھی موجود ہیں اور کچھ لوگ اقبال کے اشعار کی من پسند اور غلط شرحیں بھی کر رہے ہیں بقول اقبال

کس نہ دانست کہ من نیز بہائی دارم

ان متاعم کہ شود دست زد بصراں

ترجمہ کسی کو کیا معلوم کہ میری بھی کوئی وقت اور مقام ہے میں وہ خزانہ ہوں جو بصیرت سے محروم لوگوں کے ہاتھ چڑھ رہا ہوں بطور فارسی کے صاحب دیوان شاعر میں سمجھ سکتا ہوں کہ اقبال کس قدر عظیم شاعر تھے گورنر پنجاب نے بتایا کہ انہوں نے بطور وفاقی وزیر تعلیم اقبالیات کو نصاب کا حصہ بنانے کی کوشش کی تھی جس کی کچھ حلقوں کی جانب سے مخالفت ہوئی تھی انہوں نے برگیڈیئر ڈاکٹر وحید الزماں طارق کی اقبال کے فارسی کلام کی تدریس اور فروغ پیغام اقبال کی مساعی کی تعریف کی اور ان کے اس رضاکارانہ کام جاری رکھنے پر زور دیا آپ نے اقبال کے کلام کی مقبولیت کی بابت ترکیہ کے صدر اور ایرانی زعماء اور سکالرز کی گفتگو کے حوالے دیے اور فرمایا کہ اقبال کے کلام کی اہمیت کے سلسلے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں ہیں اور اس کی اہمیت ہمیشہ رہے گی آپ نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا ۔ محترمہ ڈاکٹر عظمی نازیہ زریں بولتی نہیں موتی رولتی ہے وہ فارسی بولتی ہے تو سعدی کی شیرینی اور حافظ کی رنگینی مزہ دیتی ہے ۔ سامعین کا جی چاہتا تھا کہ وہ بولتی رہے اور ہم سنتے رہیں ۔ ایم اے حجازی کی اجازی لے اور فکر انگیز گفتگو کی جستجو میں ہماری آرزو جاگ اٹھی ڈاکٹر طارق شریف زادہ کا انداز بیان دلوں کو موہ لیتا ہے اور سامعین کے سینوں میں روحانی قندیلیں فروزاں ہو جاتی ہیں اور اجسام و ابدان میں ایک لرزش خفی پیدا ہو جاتی ہے ۔ اپ نے قران حکیم کو علامہ اقبال کی فکر کی روشنی میں غور و خوض سے پڑھا اور مغرب کی دانش پہ ہلہ بول دیا ۔ پروفیس ندیم اسحا کی خامشی میں بھی فساد و بلاغت کے دریا بہہ رہے تھے اسامعین میں موجود تھے وہ بھی ماہر اقبالیات ہیں اور بہت اچھا بولتے ہیں وحید خواجہ فکری اقبال فورم کے بانی ہیں اور آپ فکر اقبال فورم کے صدر کی حیثیت سے خطاب کیا نقابت کے فرائض راقم نے بڑی فراخ دلی سے اعظم منیر کے سپرد کر دیے اور بہت سارے احباب نے اس پر اختلاف بھی کیا لیکن بات یہ ہے کہ ہم لوگ برگد کے درخت نہیں ہیں کہ ہمارے نیچے کوئی اور درخت اگ ہی نہیں سکتا اس لیے ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے کیونکہ نوجوان پیروں کے استاد ہیں میں نہیں کہتا علامہ اقبال نے کہا تھا کہ

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

سٹی این فورم کے چیئرمین جناب مسعود علی خان نے اقبال اور نسل نو کے مصنف کے اعزاز میں ایک تقریب کے انعقاد کا اعلان کر دیا ہے ۔ جس کے انتظامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے ۔ جناب ایم اے حجازی اور ڈاکٹر عظمی زرین شازیہ پروفیسر ندیم اسحاق کی گفتگو کی جستجو میں رہیں گے ۔ سامعین میں عوام دوست پارٹی کے سربراہ جناب جہاں زیب چوھدری کی منفی رائے گورنر پنجاب جناب محمد بلیغ الرحمان کے بارے میں مثبت سوچ میں بدل گئی اور انہوں نے گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان کی علمی وجاہت کی چاہت میں ان سے بالمشافہ ملاقات کی اور شاندار الفاظ میں انہیں خراج تحسین پیش کیا ۔ ۔گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن کی تقریر کی تاثیر میں جہاں زیب چوھدری کی حالت بدل گئی ۔

صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور

نکلے جو میکدے سے تو حالت بدل گئی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.