الوداع میرے محسن

37

تحریر:سہیل بشیر منج

میں شکر گزار ہوں اپنے تمام قارین کرام کا جن کی کالز نے مجھے یہ احساس د لوایا کہ میرا کالم بھی پڑھا جاتا ہے بہت سے دوست احباب نے میرا نیا کالم نہ آ نے کی وجہ پوچھی دراصل 10مارچ کو میرے والد محترم قلیل علالت کے بعد اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے مجھ سمیت ہمارے پورے خاندان پر سوگ طاری ہو گیا لوگوں کا کہنا ہے کہ والد کے گزر جانے کے بعد سر پر سایہ نہیں رہتا لیکن میرا تجربہ مختلف رہا نہ صرف سایہ اٹھتا ہے بندہ سوچنا بھول جاتا ہے پلاننگ کرنا بھول جاتا ہے یہاں تک کہ بولنا اور لکھنا بھی بھول جاتا ہے میں نے رمضان کریم میں کئی دفعہ کوشش کی کہ کالم لکھوں یقین جانیے کاغذ قلم لیے کوشش کرتا رہا لیکن میرے قلم سے الفاظ کا ذخیرہ شاید ختم ہو گیا تھا میں کچھ نہ لکھ پاتا اور کاغذ ایک طرف رکھ دیتا
آ ج میرے والد صاحب کو گئے ایک ماہ سے زیادہ دن ہو گئے ہیں تب جا کر دماغ نے کچھ سوچنا شروع کیا بے شک میرے رب کی یہی رضا تھی ہم نے بھی ایک دن اسی کی طرف لوٹ جانا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ اللہ کی رضا قبول کرنے میں ہم جیسے کمزور ایمان والے لوگوں کو وقت لگ جاتا ہے
میرے والد اکثر کہا کرتے تھے
(یا اللہ مینوں ٹردے پھردیاں ای لے جاویں میرا ایکو ایک پتر اے کتھے سانبدا پھرے گا )
اور ایسا ہی ہوا بالکل صحت مند تندرست تھے چند دن پہلے خون میں انفیکشن ہوئی جس نے دماغ میں ایک لوتھڑا بنا دیا اور یہی ان کی وفات کا سبب بن گیا
اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن
میں شکر گزار ہوں اپنے استاد محترم جناب مجیب الرحمن شامی صاحب کا جو نہ صرف مجھے حوصلہ دینے کے لیے تشریف لائے بلکہ اپنے پروگرام میں بھی میرے والد کا تفصیلی ذکر کیا اور انہیں بھرپور خیراج تحسین پیش کیا ان کے ساتھ تمام سیاسی سماجی صحافی بیوروکریٹس ممبران صوبائی قومی اسمبلی اور اپنے دوست احباب کا تہہ دل سے مشکور ہوں جو دکھ کی اس گھڑی میں میرے ساتھ کھڑے ہوئے
میرے والد سات اپریل 1953 کو پیدا ہوئے تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور صرف 12 سال کی عمر میں سکول سے واپس آ کر میرے دادا کے ساتھ محنت مزدوری کے لیے نکل جاتے ہیں جب پاکستان معرض وجود میں آ یا تو میرا خاندان ہندوستان سے پاکستان کے ضلع ساہیوال کے شہر کسوال میں مقیم ہوا وہیں میرے والد صاحب کا بچپن گزرا ان کی عمر ابھی 17 سال ہوئی تھی کہ فوج میں بھرتی ہو گئے 18 سال کی عمر میں مشرقی پاکستان میں لڑتے ہوئے جنگی قیدی ہو گئے دشمن ملک میں قید کسی خوفناک خواب سے کم نہ تھی انہوں نے بڑی دلیری اور بہادری سے جنگ لڑی پاک فوج نے انہیں تمغہ حرب ،تمغہ جنگ سے نوازا انہوں نے مشرقی پاکستان کی جنگ میں جرات اور بہادری کی وہ وہ داستان رقم کی کہ انہیں ان کی پیشاورانہ مہارت اور دلیری پر تمغہ جرات سے نوازا گیا
قید سے واپس آئے تو ہمارے سارے خاندان میں جشن کا سماں تھا یعنی ہمارے خاندان کو اس وقت خوشخبری ملی جب وہ ان کی واپسی سے بھی نا امید ہو چکے تھے ایک سال بعد انہوں نے فوج کی نوکری چھوڑ دی اور سکول ماسٹر بھرتی ہو گئے اب میرے والد صاحب پر اپنے چار بھائیوں اور دو بہنوں کی ذمہ داری تھی لہذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ 400 روپے ماہانہ تنخواہ سے وہ اپنے خاندان کو بہتر مستقبل نہیں دے سکیں گے تو انہوں نے چند سال بعد ہی اس نوکری کو خیر آباد کہہ کر 1976 میں اپنے خاندان کو لے کر لاہور بحریہ ٹاؤن کے نواہی گاؤں سلطان کے میں شفٹ ہو گئے اور کنسٹرکشن کا کام شروع کیا مستقل مزاجی کی حد ملاحظہ فرمائیے کہ آج 2024 میں 48 سال گزر جانے کے باوجود بھی وہ اپنی کنسٹرکشن کمپنی چلا رہے تھے آ ج بھی ان کے مختلف پروجیکٹس چل رہے تھے جو اب انشاءاللہ میں مکمل کروں گا
میرے والد میرے ہی نہیں ہمارے سارے خاندان کے محسن تھے انہوں نے مجھ سمیت اپنے بھائیوں بھتیجوں اور خاندان کے بہت سے افراد کو باوقار زندگی گزارنے کی ٹریننگ دی اور اللہ کے فضل و کرم سے آ ج ہمارا خاندان ایک مضبوط اور مستحکم کاروباری اور سیاسی خاندان کی حیثیت اختیار کر چکا ہے بلا شبہ اس سٹیٹس اور مرتبے کے پیچھے میرے والد کی ساری زندگی کی محنت ایمانداری اور خلوص نیت شامل تھی
میرے والد نے محدود وسائل کے باوجود نوابوں کی طرح زندگی گزاری شروع سے لے کر آ ج تک اچھا صاف ستھرا انداز زندگی اپنایا ہمیشہ اچھی سواری اچھے لباس پرفیوم اور قیمتی جوتے استعمال کیے ہمارے سارے خاندان کے لیے ان کی زندگی ایک مشعل راہ ہے میرے چچاؤں اور ان کی اولادوں نے آج تک میرے والد صاحب کی ہر رائے کو مقدم جانا خاندان میں کوئی بھی مسئلہ ہوتا تو والد صاحب اپنی بصیرت سے چند منٹوں میں حل کر دیتے ہیں اور ایسا فیصلہ صادر فرماتے کہ ہر کس کو قابل قبول ہوتا
اپنے محدود وسائل میں ہم تین بھائی بہنوں کو اچھے تعلیمی اداروں سے تعلیم دلوائی مجھے کاروبار کرنا سکھایا ان کا سب سے اہم پیغام ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ بیٹا تعلقات جو ایک بار بن جائیں وہ کبھی ٹوٹنے نہ پائیں اچھے برے کی پرکھ کرنا سکھائی انہی کی ٹریننگ کی بدولت اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ میں آ ج ایک اچھی کاروباری زندگی گزار رہا ہوں بلاشبہ میرے والد میرے استاد میرے دوست اور میرے محسن تھے مجھ پر اور میرے خاندان پر ان کے احسانات کی فہرست اتنی لمبی ہے کے لکھنے بیٹھ جاؤں تو شاید سو کالم بھی کم پڑ جائیں میرے والد کو جب لحد میں اتارا جا رہا تھا تو دنیا میں رمضان المبارک کا چاند نمودار ہو چکا تھا میں ہر پل دعا گو ہوں کہ اے اللہ کریم اس مقدس ماہ کے صدقے میرے والد کی کمیوں کوتاہیوں کو معاف فرما کر انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرما ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے اور انہیں نبی پاک کی شفاعت نصیب فرماد ے اور ہمیں صبر امین

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.