ججز کو دھمکی آمیز خطوط پر شفاف تحقیقات کا تقاضا

33

ملک میں عدالتی امور میں مداخلت کے الزامات اور اس حوالے سے لکھے جانے والے چھ ججز کے خط پر صورتحال پیچیدہ ہے ،بعدازاں مبینہ طور پر دھمکی آمیز خطوط بھی موصول ہوئے اور یہ سلسلہ بھی طول پکڑتا جارہا ہے تاہم اب تک تحقیقات کی مد میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی۔اب اس تناظر میں چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے 4 ججوں کو بھی دھمکی آمیز خطوط موصول ہونے پر مقدمہ درج کرلیا گیا ہے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 اور لاہور ہائی کورٹ کے 4 ججز کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے 4 ججوں کو بھی دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے ہیں جن کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل کو دھمکی آمیز خطوط یکم اپریل کو بھیجے گئے تھے۔دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی(سی ٹی ڈی) کی ٹیم نے اس معاملے پر رجسٹرار سپریم کورٹ سے ملاقات کی اور سپریم کورٹ کے ججوں کو لکھے گئے خطوط پر ان سے تفصیلی گفتگو کی۔نئی ایف آئی آر کے متن کے مطابق عام ڈاک موصول ہوئی جو متعلقہ جسٹس صاحبان کے سیکریٹریز کو ڈاک وصول کروائی گئی۔اس حوالے سے بتایا گیا کہ خطوط میں چار لفافے تھے جو چیف جسٹس پاکستان اور تین دیگر تین جسٹس صاحبان کے نام سے تھے۔مدعی کے مطابق ایڈمن انچارج خرم شہزاد نے تین اپریل کو بذریعہ فون بتایا کہ ان لفافوں میں سفید پائوڈر نما کیمکل موجود ہے، ان میں سے تین خطوط گلشاد خاتون اور ایک خط سجاد حسین کی جانب سے بھیجے گئے ہیں اور دونوں کا پتا نامعلوم ہے۔ایف آئی آر میں موقف اپنایا گیا کہ خطوط کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے۔قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران ججز کو موصول دھمکی آمیز خطوط کے معاملے پر ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) آپریشنز شہزاد بخاری اور سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) سی ٹی ڈی ہمایوں حمزہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ڈی آئی جی نے بتایا کہ ابھی تک کسی کے پاس انسپکٹر جنرل کا فعل چارج نہیں ہے، اس لیے اسلام آباد پولیس کے تمام آپریشنز میں دیکھ رہا ہوں، کیمیائی معائنے کے لیے نمونے بھجوا دیے ہیں، تین سے چار دن میں رپورٹ آ جائے گی۔عدالت نے استفسار کیا کہ کہاں سے خطوط پوسٹ کیے گئے؟ ڈی آئی جی نے بتایا کہ اسٹیمپ نہیں پڑھی جارہی ہیں، آج لاہور ہائی کورٹ کے ججز کو بھی اسی نام سے خطوط ملے ہیں۔اس پر وکیل عمران خان سلمان صفدر نے کہا کہ انہیں ہر صورت ریشما کو ڈھونڈنا چاہیے۔اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ ابھی اسٹیمپ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، کیا تمام خطوط ایک ہی ڈاک خانے سے آئے ہیں؟۔ڈی آئی جی پولیس نے بتایا کہ خطوط پر اسٹیمپ مدہم ہے مگر راولپنڈی کی اسٹیمپ پڑھی جاری ہے، عدالت نے دریافت کیا کہ آپ دونوں افسران نے خطوط کے لفافے دیکھے ہیں؟ایس ایس پی سی ٹی ڈی نے جواب دیا کہ بظاہر راولپنڈی جنرل پوسٹ آفس لگ رہا ہے، جی پی او میں پوسٹ نہیں ہوا کسی لیٹر باکس میں ڈالا گیا ہے، ہم اس لیٹر باکس کی سی سی ٹی وی اور ایریا کی معلومات لے رہے ہیں، اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔پولیس حکام کا کہنا تھا کہ تحقیقات کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔چیف جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ آپ نے مقدمہ درج کیا، اب تک کی پیشرفت کیا ہے؟ ڈپٹی انسپکٹر جنرل نے بتایا کہ ہم نے نمونے لیب کو بھجوا دیے ہیں اور ڈائریکٹر سے میری بات بھی ہو گئی ہے۔سماعت کے دوران پولیس حکام نے انکشاف کیا کہ سپریم کورٹ کے ججز کو بھی خطوط ملے ہیں۔ڈپٹی انسپکٹر جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 4 ججز کو بھی اسی طرح کے خطوط ملے ہیں۔واضح رہے کہ چندروز پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 8 ججوں کو پاؤڈر بھرے مشکوک خطوط موصول ہوئے جس میں ڈرانے دھمکانے والا نشان موجود ہے۔عدالتی ذرائع نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو مشکوک خطوط موصول ہوا جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ انتظامیہ نے دہشتگردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔بعد ازاں گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے 4 ججز کو بھی دھمکی آمیز خطوط موصول ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ دھمکی آمیز خطوط جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عابد عزیز شیخ اور جسٹس عالیہ نیلم کے نام بھجوائے گئے۔ذرائع کے مطابق دھمکی آمیز خطوط نجی کوریئر کمپنی کے ملازم نے موصول کروائے، جسے حراست میں لے لیا گیا ہے۔مشکوک خطوط موصول ہونے کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے، پولیس فورس احاطہ عدالت میں موجود ہے، محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) حکام لاہور ہائی کورٹ پہنچ گئے ہیں۔ان حالات میں اب عدلیہ کی ساکھ کو بچانے کا سوال بھی پیدا ہوتا ہے اور حالات اب تک کے تمام معاملات میں شفاف تحقیقات کا تقاضا کرتے ہیں ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.