کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

22

منشا قاضی
حسب منشا

نوع انسانی کے سچے خیر خواہ لوگ خال خال نظر اتے ہیں ادارہ رہائی کے سربراہ کی دورس نگاہ کا یہ اعجاز ہے کہ اج نوع انسانی کے ان سچے خیر خواہوں سے مل کر دل اطمینان افروز ماحول میں چلا گیا اور اب رہائی کی بجائے اسیر ہونے کو جی چاھتا ھے ۔

کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

لوگوں کے ساتھ جس شخص کا رشتہ خلوص اور محبت کی بنیاد پر قائم ہے اس کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے میں نے زندگی میں ان لوگوں کو کامیاب و بامراد پایا ہے جنہوں نے دکھی انسانوں کے لیے خیر و بھلائی کے کاموں میں سبقت لی ہے ۔ جب نیکی تمہیں مسرور کرے اور برائی افسردہ کرے تو تم مومن ہو دوسروں سے اچھائی کرتے ہوئے یہ سمجھو تم اپنی ذات سے اچھائی کر رہے ہو اچھے لوگوں کا طور طریقہ اچھے کام کرنا ہے اور اچھے کاموں ہی کو اعمال حسنہ یا اعمال خیر کہتے ہیں نیکی علم ہے بدی جہالت نیکی کے چھوٹے چھوٹے کام اور پیار و محبت کی چھوٹی چھوٹی باتیں ہماری اس زمین کو جنت نظیر بنا دیتی ہیں ۔ ہماری زمین کو جنت نظیر بنانے والے لوگ ہماری انکھوں سے اوجھل نہیں ہیں وہ موجود ہیں ہمیں ان کے بارے میں جاننا چاہیے پنجاب کے 10 اضلاع کی جیلوں میں پچھلے 23 سال سے قیدیوں کی تعلیم و تربیت اور فلاح و بہبود پر کام ھو رہا ہے ادارہ رہائی قیدی بچوں اور قیدی خواتین پرخصوصا کام کرتا ہے۔یہ ادارہ سوشل ویلفیئر پنجاب اور چیرٹی کمیشن پنجاب سے منظور شدہ ہے فارن فنڈڈ نہیں ہے یہ اپنے ممبران کے تعاون سے پنجاب کی جیلوں میں 15 رہائی ایجوکیشنل وکیشنل سکول چلا رہا ہے ۔اس ادارے کے بانی سیدہ فرح ھاشمی اور عدیل نیاز شیخ ہیں ۔ گزشتہ روز محترمہ فردوس نثار نے کیمپ جیل میں قیدی بچوں کو عید دینے کے لیے اپنی ہمدم و دمساز اور عورت فاؤنڈیشن کی سابق سماجی سائنسدان محترمہ سمیرا سلیم کے ہمراہ درون جیل کا ماحول دیکھنے کا موقع ملا ۔ کسی ادارے کے سربراہ کی کارکردگی پر نقطہ چینی کرنا بہت اسان ہے مگر وہ جن مراحل سے گزر کر کارکردگی کا گراف بلند رکھتا ہے اس کے عقب میں مسلسل ریاضت بے پناہ محنت اور رابطوں کا نہ ٹوٹنے والا سلسلہ ہوتا ہے ۔ سیدہ فرح ہاشمی نے اپنا نام اپنے کام سے بنایا ہے اور وہ کام کام اور کام پر یقین رکھتی ہیں ۔ کیمپ جیل کے سربراہ جناب ظہیر ورک کا ہوم ورک اوج ثریا کو چھو رہا ہے ۔ وہ بھی قوم پر یقین رکھتے ہیں انہیں اپنے نام کی کوئی پرواہ نہیں ہے وہ کام میں مصروف ہیں ۔ اور نام والوں سے وہ بیزار ہیں ۔ جن لوگوں نے شجر بو کر پھل اتارتے ہیں وہ ان کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

کام کو چھوڑ کر نام کے پیچھے ہئں عطا

وہ شجر بوئے نہیں جس کے پھل مانگتے ہیں

ورک صاحب مریض سے محبت کرتے ہیں مرض سے نفرت کرتے ہیں ۔ ہمارا معاشرہ فلاح اور اصلاح کی شاہراہ پر چل نکلے تو جرائم می کمی ا سکتی ہے ۔ ہر مجرم کو اپنا پہلا جرم ۔ جرم محسوس ہوتا ہے لیکن جب دوسری مرتبہ جرم کرتا ہے تو وہ اسے اپنی عادت اور حق کا درجہ دے دیتا ہے ہر مجرم اپنا دشمن خود ہوتا ہے بدگمانی و شبہ کا شکار خطاکار ہوتے ہیں انہیں قدم قدم پر خوفزدہ ہونا پڑتا ہے مجرم وہ نہیں جو جرم سے بچ نکلے بلکہ مجرم وہ ہے جو جرم کرتا پکڑا جائے معاشرہ جرائم کے لیے حالات پیدا کرتا ہے اور مجرم جرم کر گزرتے ہیں اگر غربت جرائم کی ماں ہے تو کند ذہنی اس کا باپ ہے جرم کسی نہ کسی صورت دل کو بے قرار رکھتا ہے مقدمہ بازی میں جیت گئے تو جل گئے ہار گئے تو راکھ ہوئے اگر سب افراد کی صحیح تربیت نہ ہوگی تو ہر شعبے میں برے نمونے ہی پیدا ہوں گے میں نے کتنے ہی بدعنوانوں اور مجرموں کو تائب ہوتے ہوئے دیکھا ہے ادارہ رہائی کے سربراہ سیدہ فرح ہاشمی اور عدیل نیاز شیخ مجرم بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ اور ان کے ہاتھ میں ہنر دے رہے ہیں ان کی مثبت سوچ نے اس خراب ماحول کے بطن سے صالح معاشرے کی بنیادیں استوار کر دی ہیں ۔ جناب ظہیر ورک تجربات کی یونیورسٹی ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ زندگی کے اندھیروں میں جن قدموں نے رہنمائی کے لیے اپنے ہاتھ میں صرف وہ چراغ رکھا ہے جو تجربہ کا چراغ ہے تو وہ ماضی کی غلطیوں کو پیش نظر رکھ کر مستقبل کی حماقتوں سے بچ سکتے ہیں ۔ پرانا تجربہ ہی نئی تعمیر کی بنیاد ہوتا ہے ۔ تجربہ دانائی کی ماں ہے جناب ظہیر ورک ایک بہترین استاد ہیں اور تجربہ کی یونیورسٹی ان کے تجربات سے ادارہ رہائی فیض یاب ہو رہا ہے ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ادارے کے سربراہ نے اپنی ذات کے بارے میں کوئی بات نہیں کی بلکہ انہوں نے ہم کو سنا اور یہ بہت اچھی بات ہے شوپنہاہار نے کہا تھا کہ جو لوگ تم سے ملنے ائیں ان سے اپنے ہی متعلق باتیں کر کے انہیں بیزار نہ کرو بلکہ انہیں اپنی ذات کے متعلق بات کرنے دو کہ وہ اسی لیے تمہارے پاس اتے ہیں جناب ظہیر ورک ایک ایسے ہی جلیل القدر انسان ہیں ۔ جیل کے اندر کا ماحول اتنا خوبصورت اتنا دل اویز لالہ و گل کی کیاریاں اور بچوں کے درمیان اخوت رواداری کی رعنائیاں اور خیال افروز ابشار نور بہہ رہی تھی ۔ محترمہ فردوس نثار اپنی طویل گفتگو کو دیوانگی قرار دیتی ہے اور اپنی مختصر گفتگو کو حکمت کی دلیل سمجھتی ہے اور اج بھی انہوں نے اسی پر عمل کیا اور اپ نے اپنی گفتگو کی جستجو میں بچوں کی ارزو جگا دی ۔ محترمہ فردوس نثار طوالت پر اختصار کو ترجیح دیتی ہے ۔ محترمہ سمیرہ سلیم وہ قول کی نہیں عمل کی خاتون ہیں ان کی دل سے نکلی ہوئی ساری باتیں کاشانہ ء دل پر دستک دے رہی تھی اور یہ حقیقت ہے کہ اگر بات دل سے نکلتی ہے تو دل میں جا بیٹھتی ہے جو زبان سے نکلتی ہے وہ صرف کانوں سے ٹکراتی ہے ۔ ممتاز ڈرامہ نگار محترم عاصم نے اپنی صلاحیتیں بچوں کی فلاح اور ان کی اصلاح کے لیے ایک دستاویزی فلم بنانے پر مرکوز کر دیں ۔ ادارہ راہائی کے سربراہ کے پاس خطرناک مراحل کو فتح کرنے کے لیے دو زبردست ویپن ہیں ایک اچھا اخلاق اور دوسرا نرم الفاظ وہ جانتے ہیں کہ الفاظ میں بڑی طاقت ہوتی ہے دنیا کی بڑی بڑی شرارتیں الفاظ ہی سے جنم لیتی ہیں کسی بھی ادمی کو اس بات کا موقع نہ دو کہ وہ تمہیں الفاظ سے دھوکا دینے میں کامیاب ہو جائے لفظوں ہی کے اسیر نہ بنے رہو الفاظ کی قوت کو پہچان کر ہی حضرت عیسی نے کہا تھا جنت اور زمین مٹ سکتے ہیں مگر میرے الفاظ امر ہیں حق گوئی کا اظہار کرنے والے الفاظ اپنا اثر کبھی زائل نہیں ہونے دیتے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر نذیر قیصر نے کہا تھا کہ لفظوں کو جب غلط استعمال کیا جائے تو وہ مر جاتے ہیں اور جب لفظ مر جائیں تو تہذیب مر جاتی ہے مبارک ہیں وہ جو لفظوں کو غلط استعمال نہیں کرتے کیونکہ وہ اپنے لفظوں کے ساتھ زندہ رہتے ہیں ۔ جناب ظہیر ورک نوکری نہیں کر رہے وہ حقیقت میں انسان کی خدمت کر رہے ہیں اور تاریخ ہمیشہ خدمت کرنے والوں کا نام احترام سے لیتی ہے حکومت کرنے والوں کو شاید بھول جائے لیکن خدمت کرنے والے لوگ اپنے کردار کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔ ہم نے جناب ظہیر ورک کو ایک باکردار انسان پایا اور حقیقت یہ ہے کہ ایک باکردار انسان اپنی بہتری کے ساتھ دوسرے لوگوں کی بھلائی بھی چاہتا ہے اور ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لیے بھی سرگرم عمل رہتا ہے جناب ظہیر ورک کی یہ عادت عبادت کا درجہ رکھتی ہے ہمیں اپنے ملک کے اداروں کے لیے ایسے ہی سربراہوں کی ضرورت ہے جن کی موجودگی ماحول میں اسودگی پیدا کرتی ہے ۔ شہرت بخارات کی مانند ہوتی ہے مقبولیت کو ایک حادثہ کہنا چاہیے دولت کو بہت جلد پر لگ جاتے ہیں صرف ایک چیز رہنے والی ہے اور وہ ہے کردار اور کردار ایسا ہیرا ہے جو پتھر کو کاٹ سکتا ہے ایک باکردار ادمی یقینا باہمت بھی ہوگا ۔ ادارہ رہائی کے سربراہ اور کیمپ جیل کے سربراہ کی کارکردگی کا حسن ماحول میں چاندنی بکھیر رہا تھا اور یہ حقیقت ہے ۔ حکومت پاکستان کو ایسے گمنام ہیروز کی مسیحائی اداؤں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے اور ان کی کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں تمغہ امتیاز ہلال امتیاز نشان امتیاز اور تمغہ ء حسن کارکردگی سے نوازنا چاہیے۔ ان لوگوں کی فرض شناسی کی بلائیں لینے کو جی چاہتا ہے ۔ سیدہ فرح ہاشمی اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے انہوں نے یہ مقام خیرات میں حاصل نہیں کیا اس کے عقب میں ریاضت اور بے پناہ محنت کار فرما ہے ۔ اور وہ بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ

ہم نے اپنی پلکوں کے میناروں پہ تراشے ہیں چراغ

اپ کہتے ہیں کہ افسانہ ء شب کچھ بھی نہیں

جو تار سے نکلی ہے وہ دھن سب نے سنی ہے

جو ساز پہ گزری ہے کس دل کو پتہ ہے

جاری ھے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.