گداگری ! مجبوری ،ضرورت ،عادت ،پیشہ یا مافیا؟

64

احساس کے انداز


رمضان شریف کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر میں پیشہ ور بھکاریوں اور گداگروں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک تک ہو جاتا ہے
شہروں ،دیہاتوں سڑکوں گلیوں چوک چوراہوں پر ایک جمع غفیر نظر آتا ہے جن میں بوڑھے ،جوان ،خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی ہے  جو بھیک مانگنے کو اپنا حق سمجھتے اور اس شعبہ کو بطور پیشہ اختیار کرچکے ہیں
ان کا گھر بھرا ہوتا ہے اور انہیں کسی چیز کی بھی ضرورت نہیں ہوتی
ان میں سے بعض گداگر تو اپنی ذاتی کاریں اور پرتعیش گھر رکھتے ہیں اللہ کا دیا سب کچھ ہونے کے باوجود مانگنے کی عادت پڑچکی ہوتی ہے 
یہ ہر شرم وحیا  اور عزت نفس کو بالا طاق رکھ کر مانگتے ہیں ۔
ان پر کسی جھڑکی ،ڈانٹ پھٹکار  کا کوئی اثر نہیں ہوتا جسم توانا ہوگا  ہاتھ پاوں سلامت ہوں گے مگر آہ وزاری کرتے رہیں گے
مختلف حیلے بہانے بناکر مختلف بھیس بدل کر خود کو بیمار یا اپاہج ظاہر کرکے یا بےشمار دوسری تدبیروں سے مانگنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے


یہ آپ کو ٹریفک اشاروں پر دونوں جانب نظر آئیں گے 
جو رکنے والی ہر گاڑی کو شیشہ کھٹکھٹا کر جلدی جلدی گزرتے اور مانگتے چلے جاتے ہیں
یہاں تو انہیں زبان بھی نہیں ہلانی پڑتی بس اشارہ ہی کافی سمجھا جاتا ہے  بظاہر گداگری اب پیشہ بلکہ مافیا بن چکا ہے 
مانگنے والوں میں سے پینسٹھ فیصد گداگر کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں مقدس مہینوں اور تہواروں میں ان کا سیزن عروج پر آجاتا ہے ۔
میں نے ایک گداگر سے پوچھا کہ  تقریبا” سب لوگ تو  آپ سے معذرت یا معافی مانگتے ہیں
تو پھر تمہارا کام کیسے چلتا ہے تو اس نے بتایا کہ اگر ایک مرتبہ ٹریفک اشارہ  تیں منٹ کے لیے بند ہوجائے تو تقریبا”پچاس گاڑیوں والوں سے وہ  سوال کرتے ہیں 
جن میں سے پانچ فیصد لازمی کچھ نہ کچھ دیتے ہیں یوں ایک گھنٹے میں تقریبا” ایک ہزار روپے اکھٹے ہو جاتے ہیں


  ایک اندازے کے مطابق ہر فقیر کی  کم از کم اوسط آمدنی   تین ہزار سے دس ہزار تک ہوتی ہے ۔
اس لیے یہ گداگر اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ رکھتے ہیں  اور مانگنے کو اپنی روزی اور اپنا حق گردانتے ہیں
یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے آسان اور عمدہ کمانے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہوسکتا 
پاکستان کا شمار سب سے زیادہ  خیرات دینےوالے ممالک میں ہوتا ہے ہمارے لوگ اپنی سخاوت ،شوخی ،امارت دکھانے  اور بخشوائے جانے کے لالچ میں
ان پیشہ ور بھیکاریوں کو روزانہ  تھوڑا تھوڑا کرکے کروڑوں روپے خیرات کے نام پر دے ڈالتے ہیں  ۔


میں جب بنک منیجر تھا تو ایک فقیر کا اکاونٹ میرے پاس ہوا کرتا تھا وہ ہر دس دن بعد اپنی جمع پونجی لیکر آتا تھا
جس میں  کرنسی نوٹوں کے علاوہ  بڑی تعداد میں سکے ہوتے تھے جن کو ایک بڑے سے  تھیلےمیں بھر کر لاتا 
بنک اسٹاف کو انہیں گننا مشکل ہو جاتا تھا 
وہ بتاتا تھا کہ گداگری اس کا خاندانی پیشہ بن چکا ہے
ہماری اولاد کو یہ پیشہ وراثت میں مل جاتا ہے جتنے بچے زیادہ ہوں گے اتنی ہی کمائی زیادہ ہوگی ۔
ایک اور گداگر روزآنہ بنک آکر اپنے کھلے  پیسوں اور ریزگاری کو تبدیل کراتا تھا  جو ہزاروں میں ہوتے تھے ۔
اب تو  ہمارے ملک میں یہ گداگری باقاعدہ ایک منافع بخش کاروبار یا پیشہ بن چکا ہے 
صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر بھی بھکاریوں کی بڑی تعداد بھجوائی جاتی ہے

پچھلے دنوں  علامہ اقبال ائیر پورٹ  لاہور سے ایک بڑا بھکاریوں کا گروپ گرفتار ہوا 
یہ سب آپس میں رشتہ دار تھےجنہیں عمرہ کی آڑ میں بیرون ملک اسی مقصد کے لیے بھجوایا جارہا تھا۔
زائرین کے بھیس جانے والے ان بھکاریوں کے مطابق پاکستان میں روپے ملتے ہیں لیکن
سعودیہ میں ریال میں بھیک ملتی ہے 
اس سے قبل وہ ایران اور عراق جاچکے ہیں ۔پچھلے دنوں وزارت اوورسیز پاکستانی کے سیکریٹری
ذوالفقار حیدر نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ
بیرون ملک گرفتار ہونے والے نوے فیصد بھیک مانگنے والوں کا تعلق پاکستان سے ہی بتایا جاتا ہے ۔
ایف آئی اے کے مطابق پچھلے دنوں میں ملتام ،لاہور اور سیالکوٹ سے چند گروہ گرفتار ہوئے
جو لوگوں کو  کو  بھیک مانگنے کے لیے عمرہ کے بہانے سعودی عرب لے کر جاتے  تھے ۔
ایک ملزم کے مطابق وہ   کبھی نابینا بن کر ،کبھی گونگا بن کر ،کبھی ہاتھوں سے روٹی کھانے کا اشارہ کرکے  بھیک مانگتے  اور ہر ٹرپ سے پچاس ہزار فی کس تک کما لیتے تھے
اور اپنی کمائی کا آدھا حصہ اس ایجنٹ کو ملتاتھا جو انہیں بھجواتا تھا 
اور وہاں انکی رہائش وغیرہ بھی فراہم کرتا تھا  ان واقعات سے لگتا ہے کہ
گداگری اب ایک مضبوط مافیا کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے 
ان کا ایک وسیع نیٹ ورک  ہے جسے پوری پلاننگ سے چلایا جا رہا ہے


 بھکاریوں کے مستقل اور عارضی اڈے  اور علاقے ہوتے ہیں  ہیں جہاں وہ کسی اور کو نہیں آنے دیتے ہیں
یہ بھکاری بچوں کے اغوا جیسے گھناونے جرم میں بھی ملوث پاے جاتے ہیں
منشیات فروش بھی ان کے ذریعے اپنا دھنداکرتے ہیں جو حکومت کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کے لیے کسی المیے  اور ناسور سے کم نہیں ہے  ۔
کہتے ہیں کہ معاشی تنگدستی کے انسانی رویوں اور اخلاق پر اثرات بڑے گہرے ہوتے ہیں ۔
گداگری کا یہ روپ مستحق افراد کی حق تلفی کا باعث بن رہا ہے ۔ 

ہکہتے ہیں کہ بھیک کے معانی گداگری ،مفلس کا گزر بسر کےلیے کسی سے کچھ طلب کرنا ،خیرات یا بے معاوضہ کسی نادار کو طلب کرنے پر کچھ دینا ،شدت سے التجا کرنا ،درخواست کرنا ہوتے ہیں
  جبکہ مانگنے والے کو فقیر ،گداگر یا بھکاری کہا جاتا ہے
ان میں سے بعض مجبور اور ضرورت مند یقینا” ہوتے ہیں مگر اکثریت پیشہ ور اور عادی بھکاری ہوتے ہیں ۔
گداگری دراصل تو غربت اور محرومی سے پیدا ہونے والی سرگرمی کا نام ہے
جس کا مقصد اللہ کے نام پر مدد کا حصول ہوتا ہے۔
علوم عمرانیات کے مطابق گداگری کو ایک ایسا سماجی رویہ قرار دیا جاتا ہے
جس کے تحت معاشرے کا ایک محروم طبقہ بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے
دوسروں کی امداد کا محتاج ہو جاتا ہے 
یہ طبقہ صاحب حیثیت افراد سے براہ راست  خوردونوش ،لباس اور
دیگر ضرویات کے لیے مدد طلب کرتا ہے ۔
اسلام جہاں ضرورت مندوں اور غریبوں کی مدد کی تعلیم دیتا ہے
وہیں  پیشہ ور گداگروں کی نفی بھی کرتا ہے جو کسی صورت گداگری کی اجازت نہیں دیتا
بلکہ کسب حلال پر زور دیتا ہے  حیچ مبارک ہے کہ ” جو آدمی لوگوں سے ہمیشہ سوال کرتا رہتا ہے
وہ قیامت کے دن آے گا اور اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی نہ ہو گی
“اسلام زکوۃ ،صدقہ ،خیرات کا حکم دیتا ہے  اور لوگوں کو کھانا کھلانے کی بار بار ہدایت دیتا ہے ۔
یہ اسلام کی برکات ہی تھیں کہ کہتے ہیں کہ ریاست مدینہ میں ایک وقت ایسا بھی آیا
جب لینے والا کوئی نہ تھا اور دینے والے لوگوں کو ڈھونڈتے پھرتے تھے ۔


ہمارے دادا جان جنہیں ہم “بڑے ابا “کہتے تھے
ان کا حکم تھا کہ دروازے پر آیا کوئی سوالی خالی ہاتھ واپس نہ جائے
اس لیے چاہے مٹھی بھر آٹا ہی اس کی جھولی کیوں ڈال دیا جائے
لیکن کچھ نہ کچھ دے کر ہی رخصت کیا جاتا تھا
آج سے سترسال قبل کی بات کر رہا ہوں
جب بھیک مانگنے والے نہ ہونے کے برابر ہو کرتے تھے

اور بھیک مانگنا بڑی شرم اور مجبوری کی بات سمجھا جاتا تھا ۔
مجھے یاد ہے کہ پورے ماہ میں چند ایک بھکاری ہی
دروازہ کھٹکھٹاتے یا آواز لگاتے تھے  جو پیشہ ور بھکاری نہ ہوتے
بلکہ فقیر کہلاتے تھے  ان کا بڑا احترام کیا جاتا تھا اگر انہیں ضرورت مند اور مجبور کہا جائے تو بہتر ہو گا ۔
ان میں  بھی زیادہ تر بندر ،ریچھ یا سانپ کا تماشا دکھا کر گلی محلوں میں خیرات مانگتے تھے 
اور بچے تماشا دیکھنے آتے تو مٹھی بھر آٹا بھی ان کی جھولی میں ڈال دیتے ۔
انہیں  فقیر سے زیادہ مداری  اور بازی گر کہنا زیادہ بہتر ہو گا ۔کچھ لوگ بھیک مانگنے کے لیے 
سنیاسی یا بہروپیے بن کر آتے تھے ۔براہ راست مانگنے کو برا سمجھا جاتا تھا ۔
البتہ کبھی کبھار پکھی واس گرو ہ شہر میں ڈیرے ڈالتے تو انہیں گلی محلوں میں نہ گھسنے دیا جاتا
وہ بازار اور دوکانوں تک محدود رہتے تھے  بھکاری اور فقیر جو کبھی مساجد کے باہر یا بازار میں
کسی جگہ سر جھکاے بیٹھے ہوتے تھے آج تو ہر چند منٹ بعد گھر کی گھنٹی بجا کر
مانگنے والوں کی لائن لگی  نظر آتی ہے  ان سب کو کچھ نہ کچھ دینا ممکن ہی نہیں رہا سوائے یہ کہ ان سے معذرت کرلی جائے ۔
ان پیشہ ور گداگروں کی وجہ سے مدد  اور خیرات کے اصل حقداروں کا تعین کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے 
میری استدعا ہے کہ خیرات ضرور دیں مگر منصوبہ بندی اور احتیاط سے اس سے دنیا بھی بدل سکتی ہے
اور آخرت بھی   ۔یاد رکھیں بھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہو سکتی ۔
اسلام دین فطرت ہے یہ کسی صورت میں انسانیت کی تذلیل و تحقیر برداشت نہیں کرتا 
آج اگر ہم نے اپنے ملک سے گداگری کا خاتمہ کرنا ہے تو
سب سے پہلے اس کی وجوہات غربت ،افلاس ،بےروزگاری اور جہالت جیسی
بیماریوں کی تشخیص اور علاج پر توجہ دینی ہوگی۔
اس لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں بڑھتی اس برائی کا سدباب کیا جائے کہ
بیرون ملک گداگری کا یہ نیا روپ  ہمارے وطن عزیز کا ایک غلط اور منفی زاویہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ 

 

 

 

 

جاوید ایاز خان
29/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-8-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.