خالد اقبال یاسر اردو شعر و ادب کا اھم ترین نام ھیں۔اس کی ایک وجہ ان کی بے مثال شاعری ھے۔
لیکن ایک عمدہ شاعر ھونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ادیب ،نقاد،محقق ،اقبال شناس اور مترجم کے طور پر بھی اپنی الگ شناخت رکھتے ھیں۔
اس کے علاؤہ وہ بہترین انتظامی صلاحیتیں بھی رکھتے ھیں۔اپنی مسلسل محنت اور ریاضت کی وجہ سے انھوں نے کئی علمی و ادبی اداروں میں نہایت عمدگی سے خدمات سر انجام دی ھیں۔
یاسر صاحب کی شاعری کے موضوعات منفرد اور عام روش سے ھٹ کر ھیں۔ان کی شاعری میں عصر حاضر کے مسائل،تاریخ،جنگ،امن ،مذھب،معاشرتی ناھمواریوں کی نشاندھی،تیر،تلوار،شاھی ماحول کی منظر کشی،سیاست،تصوف اور دیگر بہت سے موضوعات کو انتہائی خوب صورتی سے بیان کیاگیا ھے۔
ان کی تازہ شعری کاوش نفیری بھی اسی معیار کا تسلسل ھے،جو پچھلے کئی برسوں سے ان کی شاعری کا خاصہ ھے۔
یاسر صاحب کی ایک پہچان مزاحمتی شاعر کی بھی ھے۔انھوں نے کتاب کے فلیپ پر مزاحمت کا مفہوم انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا ھے ۔وہ لکھتے ھیں
مزاحمت ،دفاع ،رد عمل انسانی فطرت میں شامل ھیں۔مزاحمت کا منبع انسان دوستی ھے۔
مزاحمت انفرادی بھی ھوتی ھے اور اجتماعی بھی ۔انسان کی اپنے آپ سے جنگ بھی مزاحمت کا ھی ایک پہلو ھے۔
ھمارے ھاں مزاحمت کا مطلب آمریت اور اقتدار کے کروفر اور رعونت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنا ھے۔
بلکہ محض نفرت سے آگے بڑھ کر قلمی یلغار کے کارزارِ میں رھنا ھے۔جو اس رعونت کے خلاف ھو ۔
اس رعونت کو تسلیم کئے جانے کا غم ،فرعونیت کے تسلسل میں ظلم کی بالا دستی ،من مانی،حقوق کی پامالی،انصاف کی روگردانی،دوں پروری اور صلاحیت کی بے وقتی کا رنج اور اس رنج سے پھوٹنے والے غصے سے مزاحمتی شاعری جنم لیتی ھے۔جسے بالا دستی طبقے بغاوت سے تعبیر کرتے ھیں۔
حقوق کی پامالی ،زوال اقدار کا نوحہ اور ان کی بحالی کے لئے مزاحمت اور معاونت کا جذبہ ھمارے عہد کی ھی نہیں ھر عہد کی شاعری کا نمایاں رجحان رھا ھے اور رھے گا ۔،،
مزاحمت کو اتنے وسیع انداز میں شاید ھی کسی نے بیان کیا ھو۔اب آئیے نفیری کا جستہ جستہ جائزہ لیتے ھیں۔
اس کتاب کا دیباچہ ڈاکٹر فرحت جبیں ورک نے بعنوان۔۔۔۔۔نفیری،بھاؤ اور سبھاؤ کے تناظر میں۔۔۔۔لکھا ھے۔
کتاب کا آغاز حمدیہ شاعری سے ھوتا ھے۔شاعر اپنے رب کے حضور دعائیہ انداز میں التجا کرتا ھے۔آپ بھی پڑھیں۔۔۔
خضر جتنی زندگی ھو حمد میں تیری بسر
تو بنا بھی دے قلم اس دھر کے سارے شجر
تختیاں ھو جائیں میری ان گنت کوہ و کمر
صرف ھوں بحروں بحیروں کی دواتیں بھی اگر
مجھ سے رہ جائے گی پھر بھی تیری مدحت میں کسر
خشک ھوتی ھی چلی جائے گی کلک تربتر
اس کے بعد عقیدت و احترام کی خوشبو سے لبریز نعتیں شروع ھوتی ھیں۔نعت گوئی میں بھی یاسر صاحب کا انداز قدرے مختلف ھے ،چند شعر دیکھیں ۔۔۔
نڈر بناتی ھے امتی کو تری سیادت
تری اماں ھے مجھے میسر تو خوف کیسا
خاک جو تیرے پاؤں سے جھڑتی
دفن میں اس کی گور میں ھوتا
آپ نے میری شفاعت میں کمی کوئی نہ کی
میں نے بھی جذبہء بیدار سے آمین کہا
کبھی اپنے مکے مدینے بلا
کسی بھی مبارک مہینے بلا
اس کے بعد غزل کا سفر شروع ھوتی ھے۔نفیری کی غزلیں آج کی جدید شاعری سے ھم آھنگ ھیں۔
یاسر صاحب ایک وسیع مطالعہ رکھنے والے انسان ھیں،جس کا عکس ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ھے۔
وہ نہ صرف پختہ فکر شاعر ھیں بلکہ جدید سوچ اور نئے نظریات کو بھی اپنی شاعری میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ھیں۔ان کے پاس موضوعات کی کمی نہیں۔
تاھم ان کے زیادہ تر شعر عام قاری کی سوچ سے کہیں بلند ھیں۔ان کی فن کارانہ چابک دستی،تخلیقی مہارت اور مصرعوں کی دروبست انھیں اپنے عہد کے کئی شعراء سے ممتاز مقام عطا کرتی ھے۔
بقول ڈاکٹر فرحت جبیں ورک،،با اعتبار مجموعی ،،نفیری،،کا تخلیقی منظر نامہ واقعات یا کرداری تلمیحات پر اپنا انحصار روا رکھنے کے بجائے ،لفظی علائم پر اپنی بنیاد استوار کرتا ھے اور
یہ لفظی علائم بالعموم داستانوی عناصر۔۔۔۔فطرت سے ارتباط اور حسیاتی اعتبار سے فرد کی لا حاصلی ،کم مائیگی،
بے معنویت ،شکستگی،یاس،بے یقینی،بے حسی،اضطراب،منتشر الخیالی اور عدم اطمینانی کے ادراکی و حسیاتی خدوخال سے مزین ھو کر سامنے آتے ھیں،،
اس رائے کی روشنی میں یاسر صاحب کے موضوعات کا جائزہ لیا جائے تو ھمیں وہ نت نئی راھیں تلاش کرتے دکھائی دیتے ھیں۔
یاسر صاحب اس معاشرے کے حساس ترین فرد ھیں۔وہ معاشرے میں ھونے والی نا اصافیوں ،ناھمواریوں ،عدم مساوات اور سسٹم کی خرابی کے خلاف بھی اپنی آواز بلند کرتے ھیں۔اس حوالے سے وہ دکھی دلی سے کہتے ھیں۔۔۔۔
سکون کم کم ھے عام دکھ ھے
خوشی ھے وقتی مدام دکھ ھے
ستم پہ آزردہ ھے ستم گر
ستم رسیدو !تمام دکھ ھے
چلے تو مشکل رکے تو مشکل
گلا سڑا یہ نظام دکھ ھے
نیلام عدل جاری،فریاد بھی تجارت
ظلم و ستم بھی سودا ،امداد بھی تجارت
یاسر صاحب اپنی شاعری میں کئی مواقع پر جرآت مندی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ھیں۔
وہ سیاست دانوں کے حربوں ،چالاکیوں اور لوٹ مار کرنے والے مافیے سے پوری طرح واقف ھیں۔
اپنی طویل نظم سیاست نامہ میں لکھتے ھیں۔۔۔۔
وزارت کی،صدارت کی سیاست
تمنائے حکومت کی سیاست
بہت امریکیوں سے مصلحت کی
چلی ھے پھر بھی بھارت کی سیاست
وھی درباں وھی دربار داری
وھی صاحب سلامت کی سیاست
آج کے سیاسی ،سماجی ،معاشی اور شعری منظر نامے پر بھی اس شعری مجموعے میں بہت سی غزلیں موجود ھیں۔جن میں ایک ھی قافیے اور ردیف پر مشتمل غزلیں کمال کی ھیں،آئیے چند شعر دیکھیں۔۔۔
کوئی بھی منحرف نہیں،در مختلف نہیں
جتنے بھی کورنش میں ھیں سر مختلف نہیں
ایسا نہ ھو کہیں کہ سبھی ھوں ملے ھوئے
مخبر ھے کوئی اور خبر مختلف نہیں
کلغی اسی طرح کی ھے کلبوت اور ھے
سلطان کی کلاہ کے پر مختلف نہیں
تختہ ھمیں بنائے رکھامشق کے لئے
اب تو رواں ھے ھاتھ ھنر مختلف نہیں
16 دسمبر سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے بھی ایک غزل شامل ھے۔اسی تاریخ کو ھم ایک اور سانحے سے بھی گذرے تھے،جب پشاور میں دھشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پر حملہ کرکے سکول کے بچوں،اساتذہ اور عملے کے 141 بچوں کو شہید کر دیا تھا۔میں نے اس سانحے کے بعد ایک ناول اور کئی ایک نظمیں لکھی تھیں۔یاسر صاحب نے بھی اس سانحے کی یاد میں شاعری کی ھے۔انھوں نے معصوم بچوں کی یاد میں دل کی گہرائیوں اور آنسوؤں کی تپش کے زیر اثر شعر لکھے ھیں۔ملاحظہ کریں۔۔۔۔
ابھی تو توتلی زبان میں بولنے کی عمر تھی
یونہی بلاسبب اچھلنے کودنے کی عمر تھی
نئی نئی شرارتیں جہاں بھی جب بھی جی کرے
بڑے بڑوں کو بے ارادہ چھیڑنے کی عمر تھی
یہ گولیوں کی باڑ درمیان آگئی کہاں
یہ بارشوں کی بلندیوں میں بھیگنے کی عمر تھی
سلا دیا کسی نے نیند سے نہ اٹھنے کے لئے
خوشی خوشی تمھارے سونے جاگنے کی عمر تھی
کوئی ھمارے بچپنے دوبارہ چھین لے گیا
تمھارے چہروں میں ھمارے بچپنے کی عمر تھی
یوم دفاع یعنی چھ ستمبر کے حوالےسے بھی تین شاندار غزلیں نفیری کا حصہ ھیں۔کتاب کے آخر ایک طویل سہرا شامل ھے ،جو انھوں نےاپنےشایان کے لئے تحریر کیا ھے۔یوں نفیری اپنے دامن میں زندگی کے نشیب و فراز،حقائق کی تلخیاں ،عصر حاضر کے مسائل اور کئی سلگتے ھوئے سوالات کے ساتھ پوری شان و شوکت کے ساتھ دنیائے ادب میں پہلا جگمگا رھی ھے۔یاسر صاحب کو مبارک باد،ویل ڈن
۔
روبرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد نوید مرزا
15/03/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-10-2-scaled.jpg