صدر عارف علوی نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس کیوں نہیں بلا رہے

28

اگر ڈیڈلائن گزر گئی تو کیا ہو گا؟

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر)پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے جہاں ایک جانب آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد سے مبینہ دھاندلی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں
وہیں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے متعلق
وفاقی حکومت کی طرف سے بھیجی جانے والی سمری کو بنا منظور کیے واپس بھیجنے کے بعد سے ایک نئی آئینی بحث چھڑ گئی ہے۔

پاکستان کے سوشل اور روایتی میڈیا پر یہی بحث جاری ہے کہ اگر صدر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کرتے تو آگے کیا ہو گا اور کیا سپیکر قومی اسمبلی قانون کے مطابق یہ اجلاس طلب کرنے کے مجاز ہیں؟

خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب صدر عارف علوی کسی سمری کی منظوری میں رکاوٹ بنے ہوں
اس سے قبل، سابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف کی
وفاق میں حکومت کی تحریک عدم اعتماد کے ہاتھوں اختتام کے بعد جب پی ڈی ایم اقتدار میں آئی
تو صدر عارف علوی نے متعدد موقعوں پر حکومت کی طرف سے بیجھی گئی سفارشات کی توثیق نہیں کی تھی۔

مثال کے طور پر جب پی ڈی ایم حکومت نے نئے گورنر پنجاب بنانے کی تجویز صدر کو بھجوائی تھی
یا جب آفیشل سیکرٹس ایکٹ اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کے بل کو صدر کے پاس بھجوایا گیا تھا۔

اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ آئین میں بڑا واضح ہے کہ اگر اجلاس نہیں بلایا جاتا
تو 21ویں روز سپیکر کو اجلاس بلانے کا اختیار ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ صوبوں میں بھی اگر گورنر اجلاس نہیں بلاتا تو وہاں بھی یہی اصول لاگو ہو گا۔

سابق وزیر قانون خالد رانجھا نے بتایا کہ بظاہر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی
اِس وقت ایک پارٹی کی لائن پر چل رہے ہیں
اور اُمور مملکت کو ترجیح نہیں دے رہے ہیں تاہم، اُن کے مطابق،
صدر مملکت کے پاس یہ آئینی اختیارات موجود ہیں کہ وہ اس سمری پر فیصلہ کرنے کی ضمن میں اپنا وقت لیں،
اسے مسترد کریں یا منظور کیے بغیر واپس بھیج دیں۔

خالد رانجھا کے مطابق سپیکر کے پاس ایسے کوئی آئینی اور قانونی اختیارات نہیں ہیں،
کہ وہ صدر کے ہوتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر سکیں۔

27/02/24

https://dailysarzameen.com/

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.