رومانس جب بلیک میلنگ میں بدل جائے۔

تحریر: محمد ندیم بھٹی

6

سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں فاصلے سمٹ گئے ھیں، وہیں انسانی رشتے اور اعتماد بھی ایک نازک دوراھے پر کھڑے ھیں۔ ہنی ٹریپنگ جیسے جرائم نے جہاں دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑے ھیں، وہیں اب یہ ناسور ہمارے معاشرے کو بھی تیزی سے نگلنے لگا ھے۔ ہنی ٹریپنگ ایک ایسا فریب ھے جس میں محبت، تعلق یا جذبات کے نام پر کسی شخص کو اپنے جال میں پھنسایا جاتا ھے، اور پھر اسے بلیک میلنگ، دھوکہ دھی یا مالی فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا ھے۔ اس اصطلاح کا آغاز بین الاقوامی سطح پر انٹیلی جنس اداروں سے ھوا تھا جہاں دشمن ایجنٹ کو خوبصورت عورتوں کے ذریعے فریب دیا جاتا تھا، مگر آج یہ ہتھیار صرف سرکاری راز چرانے تک محدود نہیں رھا بلکہ عام لوگوں کی زندگیوں کو بھی تباہ کرنے لگا ھے۔
پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں سوشل میڈیا کا استعمال تیزی سے بڑھا ھے، وہیں لوگوں کی سادگی، تنہائی، اور محبت کی تلاش کو بھی مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد نے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ھے۔ لاہور جیسے جدید اور بڑے شہر میں ہنی ٹریپنگ کے حالیہ واقعات نے اس خطرے کو مزید نمایاں کر دیا ھے۔ سوشل میڈیا پر بنائی جانے والی جعلی پروفائلز، مصنوعی خوبصورتی سے مزین تصاویر اور چکنی چپڑی باتیں نوجوانوں کو اس جال میں پھانسنے کے لیے کافی ھوتی ھیں۔
ہنی ٹریپنگ کا ایک عمومی طریقہ یہ ھوتا ھے کہ لڑکی یا لڑکا، کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اپنے شکار سے رابطہ کرتا ھے۔ دنوں کی بات چیت، محبت بھرے جملے، وعدے اور اعتماد سازی کے بعد ملاقات کا وقت طے ھوتا ھے۔ اکثر ملاقات کسی فلیٹ یا ھوٹل میں رکھی جاتی ھے جہاں پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت مجرم موجود ھوتے ھیں۔ جیسے ھی شکار اندر آتا ھے، ویڈیو بنانا، کپڑے اتروانا یا زبردستی قابلِ اعتراض حرکات کروانا شروع کر دیا جاتا ھے۔ بعدازاں ان ویڈیوز کو لیک کرنے کی دھمکی دے کر رقم، قیمتی اشیاء یا مستقبل میں کسی غیرقانونی کام کے لیے بلیک میل کیا جاتا ھے۔
حالیہ دنوں لاھور میں پیش آنے والے ایک واقعہ نے میڈیا کی توجہ حاصل کی، جہاں گلبرگ کے ایک فلیٹ میں نوجوان کو ایک لڑکی نے فیس بک کے ذریعے جال میں پھنسایا، اسے بلایا اور پھر اس کے ساتھ زبردستی ویڈیو بنا کر اسے بلیک میل کیا گیا۔ نہ صرف اس سے لاکھوں روپے چھینے گئے بلکہ اس کی ذاتی معلومات کو بھی افشا کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ متاثرہ نوجوان نے ہمت کر کے پولیس سے رجوع کیا اور مقدمہ درج کرایا۔ پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیجز اور دیگر شواہد کی مدد سے تحقیقات کا آغاز کیا ھے۔ ایسے واقعات نہ صرف متاثرہ فرد کی ذہنی صحت کو متاثر کرتے ھیں بلکہ معاشرے میں خوف، بے یقینی اور بداعتمادی کی فضا کو بھی جنم دیتے ھیں۔
سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ ایسا کیوں ھو رہا ھے؟ کیا ہماری نوجوان نسل کی تربیت میں کمی ھے؟ یا پھر ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہمیں ایسے المیوں کی طرف دھکیل رھا ھے؟ ماہرین نفسیات اور سوشیالوجسٹ اس بات پر متفق ھیں کہ جدید معاشرے میں تنہائی، عدم تحفظ اور جذباتی کمزوری نے نوجوانوں کو ایسے خطرناک جالوں کے لیے نرم ہدف بنا دیا ھے۔ سوشل میڈیا جہاں ایک طرف لوگوں کو قریب لا رھا ھے، وہیں اسے جرائم پیشہ افراد نے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ھے۔
ہنی ٹریپنگ صرف مالی نقصان تک محدود نہیں ھوتی بلکہ اس کا گہرا اثر فرد کی عزتِ نفس، خاندانی تعلقات اور پیشہ ورانہ زندگی پر بھی پڑتا ھے۔ کئی کیسز میں متاثرہ افراد نے شرمندگی اور خوف کے مارے خودکشی تک کی کوشش کی ھے۔ اس لیے یہ محض ایک جرم نہیں بلکہ ایک سنگین معاشرتی مسئلہ بھی ھے۔
ہنی ٹریپنگ کی روک تھام کے لیے ضروری ھے کہ سب سے پہلے اس موضوع پر کھل کر بات کی جائے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں سے دوستانہ رویہ رکھیں تاکہ وہ اپنی زندگی کے مسائل کو کھل کر بیان کر سکیں۔ تعلیمی اداروں میں سائبر سیفٹی اور اخلاقی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ نوجوانوں کو یہ شعور ھو کہ آن لائن روابط میں کس حد تک جانا درست ھے اور کب محتاط ہو جانا چاہیے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ سائبر کرائم کے لیے قائم اداروں کو مضبوط کرے، جدید ٹیکنالوجی فراہم کرے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ رابطہ رکھ کر ایسے جعلی اکاؤنٹس کو فوری بند کرائے جو ہنی ٹریپنگ کے لیے استعمال ھو رھے ھیں۔
ایک اور اہم پہلو یہ ھے کہ میڈیا کو اس موضوع پر ذمہ داری سے رپورٹنگ کرنی چاہیے۔ متاثرہ افراد کی شناخت چھپانا اور ان کی عزتِ نفس کا خیال رکھنا ازحد ضروری ھے تاکہ وہ آگے آ کر انصاف کے لیے جدوجہد کر سکیں۔ کئی کیسز میں میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ نے متاثرین کو مزید نقصان پہنچایا ھے۔
علمائے کرام اور مذہبی رہنماؤں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے خطبات میں اس طرح کے سماجی جرائم کے خلاف شعور اجاگر کریں۔ ہنی ٹریپنگ نہ صرف ایک فرد کا جرم ھے بلکہ یہ پورے معاشرے کی خاموشی کا نتیجہ بھی ھے۔ اگر ہم سب اپنی اپنی سطح پر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، تو اس بڑھتے ہوئے ناسور کو روکا جا سکتا ھے۔
یہ امر بھی نہایت ضروری ھے کہ متاثرین کو قانونی، نفسیاتی اور سماجی مدد فراہم کی جائے۔ بہت سے متاثرہ افراد اپنی بے عزتی کے خوف سے مقدمہ درج نہیں کراتے، اور یوں یہ مجرم مزید افراد کو نشانہ بناتے ھیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی صورتحال کے لیے خصوصی ہیلپ لائنز، قانونی معاونت، اور خفیہ شکایات کا نظام متعارف کروائے تاکہ لوگ بلاخوف و خطر اپنی شکایات درج کرا سکیں۔
اگرچہ ہنی ٹریپنگ ایک نیا اور پیچیدہ چیلنج ھے، لیکن یہ ناقابلِ شکست نہیں۔ اس کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے ہمیں اجتماعی شعور، بہتر تربیت، مؤثر قانون سازی، اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد درکار ھے۔ جب تک ہم خاموش رہیں گے،

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.