اگر آپ کو سیر و تفریح یا کاروبار کے سلسلے میں ملائیشیا ،تھائی لینڈ ،ویتنام، کمبوڈیا ،لاؤس ،سنگاپور، انڈونیشیا یا پھر سری لنکا جانے کا اتفاق ہو تو ملاحظہ فرمائیے گا کہ انہوں نے اپنے ٹورسٹ پوائنٹس پر انسانوں کو بچانے کے لیے کیا کیا انتظام کر رکھے ہیں ان میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کی ملکی آمدن میں ٹورزم انڈسٹری ایک بڑا حصہ ڈال رہی ہے کبھی آپ کو ملائشیا جانے کا اتفاق ہو تو وہاں مقامی لوگوں کے ساتھ آسٹریلیا نیوزی لینڈ سے لے کر افریقی اور عرب ممالک کے لوگ بھی ملیں گے جو اپنی فیملیز کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں وہ ان ممالک کا انتخاب اس لیے کرتے ہیں کہ یہاں ان کی جان و مال عزت ہر لحاظ سے محفوظ رہتی ہے آپ ملایشیا کے کسی بھی ساحل پر چلے جائیں وہاں انتظامیہ کے واچ ٹاور نظر آئیں گے انہوں نے ہر ساحل پر الارم سسٹم نصب کیے ہوئے ہیں جو کسی بھی سمندری طوفان کی صورت ساحل پر موجود لوگوں کو اطلاع دیتے ہیں
انتظامیہ کے لوگ فوری طور پر الرٹ ہو جاتے ہیں لوگوں کو ساحل سے دور بھگاتے ہیں اور جو لوگ کشتیاں لے کر سمندر کے اندر گئے ہوتے ہیں ان کی حفاظت کو بھی یقینی بناتے ہیں وہ تو چلو امیر ملک ہیں انہوں نے سیاحوں کی حفاظت کے لیے الگ سے ہیلی کاپٹر اور جدید موٹر بوٹس لے
رکھی ہیں وہ اسی حساب سے ٹورزم سے پیسہ کما رہے ہیں اور دنیا بھر کے لوگ ان کے حفاظتی اقدامات کی وجہ سے ٹورزم کے لیے انہی ملکوں کا رخ کرتے ہیں میں نے بھی یہ تمام ملک دیکھے ہیں یقین کریں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات جتنا خوبصورت ہو پھر سوچیے کہ یہاں انٹرنیشنل ٹورسٹ کیوں نہیں آتے
گزشتہ روز جو واقعات سوات میں پیش آئے ہیں جس میں اسی کے قریب لوگ لقمہ اجل بن گئے ان واقعات نے ہر پاکستانی کو اشکبار کر دیا ہے جب وہ مناظر آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو جسم پر ایک کپکپی سی طاری ہو جاتی ہے کس طرح ایک خاندان کے تیرہ افراد پتھروں کے ڈھیر پر کھڑے باری باری موت کا انتظار کر رہے تھے کس طرح لوگوں کو مدد کے لیے پکار رہے تھے اور کس طرح زندگی پل پل سسک رہی تھی گزرتے لمحوں کے ساتھ
زندہ رہنے کی امید ان کے ہاتھوں سے یوں سرک رہی تھی جیسے خشک ریت کس طرح وہ اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے انتظامیہ سے زندگی کی خیرات مانگ رہے تھے اور کس طرح مقامی لوگ حکومتی اہلکاروں کو فون کر رہے تھے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی چند سال قبل ایسا ہی ایک افسوس ناک واقعہ مری میں پیش آ یا تھا تب حکمرانوں نے نعرے لگائے تھے کہ اب کے بعد کسی بھی انسانی جان کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا
اب جن کا سارا خاندان ایک ہی دن میں دنیا سے رخصت ہو گیا ان کے لیے اب کے بعد کچھ نہیں ان کی نظر میں دریائے سوات اور کے پی کے حکومت ایک مجرم کی حیثیت رکھتے ہیں گزشتہ سال ایک اور دردناک واقعہ دوبیر ویلی میں پیش آیا تھا پانچ بھائی دریا میں پھنس گئے تھے گھنٹوں مدد کے لیے چیختے رہے لیکن ریسکیو کا کوئی اہلکار انہیں بچانے کے لیے نہ پہنچا اس وقت بھی مقامی لوگ ان کی ویڈیوز بنانے میں مصروف رہے اس افسوسناک واقعہ سے نہ تو سیاہوں نے کوئی سبق سیکھا نہ مقامی لوگوں نے اور نہ ہی انتظامی اداروں نے اس پر افسوس کی بات یہ کہ جب وزیراعلی سے سوال کیا گیا تو ان کے جواب نے فوت شدگان کے وارثان کے زخموں پر یوں نمک پاشی کی کہ ان کے جگروں کو چیر کر رکھ دیا اور لوگوں پر یہ بات واضح کر دی کہ اس قسم کا انسان کسی صوبے کا وزیر وزیراعلی تو درکنار ایک کونسلر بننے کا بھی اہل نہیں
جس طرح مری واقعہ پر پنجاب حکومت جواب دی تھی تحریک انصاف کے کارکنان نے وزیراعلی پنجاب کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر دیا تھا حالانکہ وہاں پر فوری طور پر مدد روانہ ہو گئی تھی ان کے نزدیک ماڈل ٹاؤن واقعہ میں قصوروار شہباز شریف جب کہ سانحہ ساہیوال میں قصور وار پولیس ہے جب تک ہمارے رویہ جات یہ رہیں گے ہم یوں ہی مرتے رہیں گے ان واقعات جن میں ڈسکہ کے بد نصیب افراد سمیت تقریبا اسی لوگ جان سے گئے تحریک انصاف کو جواب دہ ہونا ہوگا اگر تو گنڈاپور سمجھتے ہیں کہ ایک ڈپٹی کمشنر کی قربانی سے وہ بچ جائیں گے تو شاید وہ غلطی پر ہیں عوام سوال پوچھ رہے ہیں کہ تحریک انصاف گزشتہ بارہ سال سے پاکستان کے سب سے خوبصورت صوبے کی میں حکومت کر رہی ہے اور سب سے کم ترقی یافتہ صوبہ بھی یہی ہے انہوں نے سوائے نعروں،کرپشن،اسلام آباد فتح کرنے، ملکی نظام کو مفلوج کرنے آپس میں نفرت پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا
مرنے والوں کے اہل خانہ کا دکھ ابھی کم نہیں ہوا تھا کہ ایک تصویر نے سارے ملک کے زندہ انسانوں کو پھر سے زخموں سے چور کر دیا اس تصویر میں وفات پانے والے افراد کے تابوت میونسپل کی گاڑی پر لاد کر ہسپتال منتقل کیے جا رہے تھے
جناب گنڈا پور یہ فرمائیے کہ آپ کی سیاسی جماعت کو صوبے میں حکومت کرتے بارہ سال گزر گئے ہیں کیا آج تک کوئی ایمبولنس سسٹم متعارف یا منظم نہیں کر سکے تو اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہو سکتی ہے آپ جیسے لوگوں کو اپنے اپنے استعفے دے کر گھر چلے جانا چاہیے
حکمرانوں میں اگر ذرا سی بھی انسانیت موجود ہے تو آج سے ہی فیصلہ کر لیں کہ اب اس طرح کسی سیاح کو مرنے کے لیے بے یار و مددگار نہیں چھوڑا جائے گا
گنڈاپور صاحب آپ ہی کے
ملک کے ایک دوسرے صوبے نے دور دراز علاقوں سے مریضوں کو بڑے ہسپتالوں میں منتقل کرنے کے لیے ایئر ایمبولنس