لوٹ کے گھر جانا ہے

تحریر: رفیع صحرائی 03064840657

2

صدا بصحرا
رفیع صحراٸی
لوٹ کے گھر جانا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانسوں جیسی بے اعتبار چیز کوئی بھی نہیں۔ ایک لمحے کا بھروسہ نہیں۔ کوئی پتا نہیں ایک سانس لینے کے بعد دوسرا سانس لے پائیں گے یا نہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے معلم نیاز احمد لاہور میں ٹیچرز ٹریننگ کے دوران پوری انرجی کے ساتھ لیکچر دے رہے تھے۔ اچانک شدید ہارٹ اٹیک ہوا۔ وہ جھکے، بیٹھے، سجدہ ریز ہوئے اور ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ انہیں بھرپور زندگی سے موت کی آغوش میں پہنچنے تک صرف چار سیکنڈ لگے۔
زندگی ایک سفر ہے۔ انسان اپنی پیداٸش سے لے کر موت تک مسلسل سفر میں رہتا ہے۔ جب تک سانس چلتی رہتی ہے یہ سفر بھی جاری رہتا ہے۔ یہ سفر کسی کا کم کسی کا زیادہ ہوتا ہے۔ کسی کا سفر اتنا طویل ہوتا ہے کہ وہ اپنی تیسری یا چوتھی نسل کو اپنے سامنے پھلتا پھولتا دیکھ لیتا ہے اور کسی کاسفر اتنا مختصر ہوتا ہے کہ بس چند سانسوں میں پورا ہو جاتا ہے۔ زندگی کا سفر طویل ہو یا مختصر اس کی منزل بہرحال موت ہی ہے۔ زندگی کو چند روزہ کہا گیا ہے۔ لگتا بھی ایسا ہی ہے۔ آپ سالوں پرانی باتوں کو یاد کریں، یوں لگتا ہے ابھی کل ہی کی بات ہو۔ پچاس یا ساٹھ برس کے کسی شخص کو پوچھ کر دیکھیں وہ یہی کہے گا کہ اتنا لمبا عرصہ گزرنے کا پتا بھی نہیں چلا۔
زندگی بالکل عارضی چیز ہے۔ ہمارا ٹھکانہ یہاں صرف ایک مسافر کا سا ہے مگر ”دل ہے کہ مانتا نہیں“ خواہشوں کے بے لگام گھوڑے نے ہمیں بے بس کر رکھا ہے۔ ہم میں سے اکثریت کی حرص ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ لالچ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ یہ آج کی بات نہیں ہے۔ ازل سے یہ سلسلہ چلتا آ رہا ہے۔
ہمیں کھانے کو دو روٹیاں چاہیے ہوتی ہیں۔ وہ روٹیاں دال یا اچار کے ساتھ بھی کھائی جا سکتی ہیں مگر ہم نے مرغن اور پر تکلف کھانوں کو پہلی ترجیح بنا رکھا ہے۔ سادہ مکان میں بھی زندگی کے دن پورے کیے جا سکتے ہیں مگر جذبہِ مسابقت کے تحت پُرتعیّش رہائش گاہ کو ہم نے اپنے لیے ضروری سمجھ لیا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے تعیّشات کو ضرورت سمجھ لیا ہے اور لگژری لائف سٹائل اپنانے کے کریز میں مبتلا ہو کر ناجائز ذرائع آمدن کو بھی جائز سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ ہم نے بُھلا ہی دیا ہے کہ جو کچھ یہاں کمائیں اور خرچ کریں گے اس کا آگے چل کر حساب بھی دینا ہے۔ ہم بے حساب کمائی کے خبط میں مبتلا ہو کر مشین کی طرح کماتے جاتے ہیں اور دولت کے انبار لگاتے چلے جا رہے ہیں۔ سانس جیسی بے وفا چیز دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ ہماری کھڑی کی ہوئی ایمپائر، بے شمار دولت، کوٹھیاں، بنگلے اور کاریں یہیں رہ جائیں گی اور ہم چلے جائیں گے۔
”سب ٹھاٹ پڑا رہ جاۓ گا جب لاد چلے گا بنجارا“
کفن میں کوئی جیب نہیں ہوتی، امیر غریب، بادشاہ ، فقیر، سب کی قبر ایک جیسی اور ایک سائز کی ہوتی ہے۔ قبر کے اندر کا ماحول بھی یکساں ہوتا ہے۔ مٹی کا فرش، مٹی کی دیواریں، مٹی کی چھت، نہ پنکھے کی سہولت نہ اے سی کی عیاشی۔ لاکھوں، کروڑوں اور اربوں کی جائیدادیں ان وارثوں کے کام آئیں گی جو کبھی بھولے سے بھی آپ کو یاد نہیں کریں گے۔ ہم کون سا اپنے بڑوں کو یاد کرتے اور ان کے لیے کچھ پڑھ کر ایصالِ ثواب کے لیے انہیں بھیجتے ہیں جو اپنی آنے والی نسل سے اس کی امید رکھیں۔ البتہ اپنی نیک یا بد کمائی کا حساب ہمیں ہی دینا ہو گا۔ بابا فرید کیا خوب فرما گٸے ہیں
فریدا! روٹی مَینڈی کاٹھ دی تے لاون مَینڈھی بُھکھ
جِنّہاں کھاہدیاں چوپڑیاں گھنے سہن گے دُکھ
(اے فرید میری روٹی لکڑی کی اور سالن بھوک ہے۔ جو چُپڑی ہوئی روٹیاں کھائیں گے انہیں اس کمائی کا حساب بھی دینا ہو گا جس کی وجہ سے وہ روغنی روٹی بنی ہو گی)
ہم دنیا میں مسافر ہیں۔ مسافروں کی طرح ہی رہیں تو ہمارے لیے آسانی ہو گی۔ اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔
‏ایک بادشاہ نے کسی بات پر خوش ہو کر ایک شخص کو یہ اختیار دیا کہ وہ سورج غروب ہونے تک جتنی زمین کا دائرہ مکمل کر لے گا، وہ زمین اس کو الاٹ کر دی جائے گی۔ اگر وہ دائرہ مکمل نہ کر سکا اور سورج غروب ہو گیا تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔ یہ سن کر وہ شخص چل پڑا۔ چلتے چلتے ظہر ہوگئی تو اسے خیال آیا کہ اب واپسی کا چکر شروع کر دینا چاہیے، مگر پھر لالچ نے غلبہ پا لیا اور سوچا کہ تھوڑا سا اور آگے سے چکر کاٹ لوں۔ پھر واپسی کا خیال آیا تو سامنے کے خوبصورت پہاڑ کو دیکھ کر اس نے سوچا اس کو بھی اپنی جاگیر میں شامل کر لینا چاہیے۔ الغرض واپسی کا سفر کافی دیر سے شروع کیا۔ اب واپسی پر یوں لگتا تھا جیسے سورج نے اس کے ساتھ مقابلہ شروع کر دیا ہے۔ وہ جتنا تیز چلتا پتہ چلتا سورج بھی اُتنا جلدی ڈھل رہا ہے۔ عصر کے بعد تو سورج ڈھلنے کی بجائے لگتا تھا پِگھلنا شروع ہو گیا ہے۔ وہ شخص دوڑنا شروع ہو گیا کیونکہ اسے سب کچھ ہاتھ سے جاتا نطر آ رہا تھا۔ اب وہ اپنے لالچ کو کوس رہا تھا، مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔ دوڑتے دوڑتے اس کا سینہ درد سے پھٹا جا رہا تھا، سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔ مگر وہ تھا کہ بس دوڑے جا رہا تھا۔ آخر سورج غروب ہوا تو وہ شخص اس طرح گرا کہ اس کا سر اس کے سٹارٹنگ پوائنٹ کو چھو رہا تھا اور پاؤں واپسی کے دائرے کو مکمل کر رہے تھے، یوں اس کی لاش نے دائرہ مکمل کر دیا- جس جگہ وہ گرا تھا اسی جگہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.