آج ایک دنیا محبوب عالم بوبی کو اس کے فن کی وجہ سے جانتی ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ سٹیج، ٹیلیویژن اور فلم آرٹسٹ بوبی کو اپنا نام بنانے میں کس قدر محنت اور کوشش کرنا پڑی ہے۔
محبوب عالم بونی نے 1962 میں منڈی احمد آباد کی دھرتی پر جنم لیا۔ تب یہ شہر منڈی ہیرا سنگھ کہلاتا تھا۔ باپ محنت مزدوری کرتا تھا۔ تب تعلیم حاصل کرنے کا زیادہ رواج بھی نہ تھا۔ بوبی نے بھی بچپن ہی سے محنت مزدوری شروع کر دی۔ لڑکپن میں تلاش معاش کی خاطر کراچی چلا گیا۔ اس دور میں پاکستان میں جوڈو اور کراٹے کا فن نیا نیا متعارف ہوا تھا۔ کراچی میں مزارِ قائد کے قریب ننجا ماسٹر اشرف طائی نے نوجوانوں کو باقاعدہ اس فن کی تربیت دینے کے لیے سنٹر بنایا ہوا تھا۔ بوبی کی مہم جُو طبیعت نے اسے مجبور کیا اور اس نے کراٹے کی تربیت لینی شروع کر دی۔
واپس اپنے شہر آ کر اس نے اہنے دوست سعید کے ساتھ مل کر یہاں کے نوجوانوں کو کراٹے کی تربیت دینی شروع کر دی۔ انہی دنوں یہ شادی کے بندھن میں بندھ گیا۔ اخراجات میں اضافہ ہو گیا جبکہ آمدنی قلیل تھی۔ بوبی عام مزدوری سے ہٹ کر کچھ کرنا چاہتا تھا۔ تب ہم نے آپس میں مشورہ کیا اور 1984میں ہمارے شہر کے فوٹو گرافر فضل حسین قریشی سے اس نے فوٹو گرافی کا فن سیکھنا شروع کر دیا۔ استاد نے بھی اپنے ہونہار شاگرد کو اپنا ہنر منتقل کرنے میں بخیلی سے کام نہ لیا۔ 1986 میں محبوب نے استاد کی اجازت سے بوبی فوٹو سٹوڈیو کے نام سے اپنا اپنا سٹوڈیو قائم کیا اور الگ سے کام شروع کر دیا۔ یہ سٹوڈیو 39 سال گزر جانے پر آج بھی اسی نام سے قائم ہے۔
1986 میں ہی شبیر احمد بابر، نجیب الرحمان، رفیع صحرائی، محبوب عالم بوبی اور شفقت رسول قمر نے بوبی آرٹس کونسل کی بنیاد رکھی اور شہریوں کو تفریح مہیا کرنے کے لیے سٹیج ڈراموں کا آغاز کر دیا۔ یہ ڈرامے مفت دکھائے جاتے تھے جبکہ اخراجات تمام دوست مل کر پورے کرتے تھے۔ اس دور میں بڑے یادگار ڈرامے سٹیج کیے گئے جن میں مرکزی کردار محبوب بوبی ادا کیا کرتے۔ اسی دور میں بوبی آرٹس کونسل نے ایک چیریٹی ڈراما سٹیج کیا۔ پہلی مرتبہ ڈرامے کے ٹکٹ بھی فروخت کیے گئے اور مخیّر حضرات سے ڈونیشن بھی اکٹھی کی گئی۔ اس ڈرامے کی آمدنی سے ینگ سٹارز کرکٹ کلب کے لیے ریلوے اسٹیشن کے سامنے کرکٹ گراؤنڈ بنوا کر دی گئی۔ بعد ازاں اس کلب سے کئی نامور کھلاڑی نکلے جنہوں نے ضلعی اور صوبائی سطح پر اپنا نام اور مقام بنایا۔ اس دوران بوبی نے اپنی تعلیمی کمی کو پورا کرنے کی ٹھانی اور راقم سے باقاعدہ پڑھنا شروع کر کے اس حد تک قابلیت پیدا کر لی کہ اردو اور پنجابی زبان میں لکھی تحریریں پڑھنے کے علاوہ ذاتی سکرپٹ بھی خود لکھنے شروع کر دیئے۔
بوبی سیماب صفت نوجوان تھا۔ ہر لمحہ کچھ نیاکرنے کو آمادہ و تیار رہتا تھا۔ 1991 میں باؤ محمد اسلم انجم (آج کل ریلوے میں آفیسر ہیں)، خاور سلیم آذر ( معروف شاعر و ادیب اور بزمِ خاور انٹرنیشنل کے روحِ رواں) کے ساتھ مل کر ہم نے ٹیلی فلم بنانے کا پروگرام بنایا۔ “وطن تے قربان” کے نام سے بننے والی اس فلم کے مصنف و ہدایت کار کی ذمہ داری راقم (رفیع صحرائی) نے نبھائی۔ محبوب عالم بوبی اس فلم میں ہیرو جبکہ خاور سلیم آذر نے ولن کے کردار ادا کیے۔ یہ فلم بڑے جوش و جذبے کے ساتھ بنائی گئی تھی جسے علاقائی سطح پر بڑی پذیرائی ملی جس سے حوصلہ پا کر محبوب بوبی اور خاور سلیم آذر نے اس دور کے واحد پاکستانی چینل پی ٹی وی کا رخ کیا اور بہت سے اردو اور پنجابی ڈراموں میں کام کیا۔ لاہور آنا جانا تسلسل سے شروع ہوا تو بوبی نے فلم سٹوڈیوز کا رخ بھی کر لیا۔ اس کی خداداد صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے فلم ڈائریکٹرز نے اسے ثانوی کرداروں میں کاسٹ کرنا شروع کر دیا۔ بوبی نے فلم اور ٹی وی پر کام کو پیشے کے طور پر اپنانے کی بجائے شوق تک ہی محدود رکھا کہ اسے اپنے اصل پیشے یعنی فوٹو گرافی سے عشق تھا۔ فلم اور ٹی وی کے کیمرہ مینوں سے اس نے فوٹو گرافی کے اسرار و رموز سیکھے جو اس کے بہت کام آئے۔ اس نے فلم سٹوڈیوز میں میک اپ اور گیٹ اپ کے فنون بھی بڑی محنت سے سیکھے۔ ہر قسم کی مونچھ، داڑھی اور وِگ یہ خود تیار کر لیتا ہے۔ اپنے ڈرامے کے فن کاروں کا میک اپ اور گیٹ اپ بھی خود کرتا ہے۔
بوبی نے قریباً پچیس سال تک اپنے شہر کے لوگوں کو تفریح مہیا کرنے کے لیے ہر سال 14 اگست اور ٹرو کے موقع پر سٹیج ڈرامے اور رنگا رنگ ثقافتی پروگراموں کا سلسلہ جاری رکھا جن میں فلم، سٹیج اور ٹیلیویژن کے معروف فن کاروں کو بلوایا جاتا رہا۔ ان فن کاروں میں وکی کوبرا، امجد ہلچل، سہیل پٹاخہ، اچھی خان، پیراں دتہ (آفتاب اقبال کے شو میں ناگی کا کردار ادا کرنے والے)، رضا ظریف، فلم سٹار ہمایوں گل خان، گلوکار لعل دین شہبازی، منشاء قصوری، اسحاق نیّر (پاکستان کشور کمار کے نام سے موسوم) سمیت درجنوں فن کار شامل ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مقامی اور علاقائی فنکاروں کو بڑے فنکاروں کے ساتھ کام کر کے سیکھنے کا موقع ملا۔ شہر کے مخیّر حضرات اور سیاسی شخصیات ان شوز کے اخراجات میں بوبی کے ساتھ تعاون کرتی تھیں۔ رات بھر ہزاروں شائقین کو مفت پروگرام دیکھنے کو ملتے تھے۔ پھر لوگوں نے دستِ تعاون کھینچ لیا۔ تب بھی چند سال تک جیسے تیسے کر کے بوبی نے یہ سلسلہ جاری رکھا مگر ایک پروگرام کے بعد جب اسے فن کاروں کو معاوضے کے طور پر سٹوڈیو کا کیمرا، آرٹس کونسل کے آلاتِ موسیقی اور دوستوں سے ادھار رقم لے کر ادائیگی کرنا پڑی تو اس نے یہ سلسلہ بند کر