مشترکہ خاندان اور جدید سماج

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

2

میری پسندیدہ سینئر ٹی وی اور فلموں کی مشہور اداکارہ عائشہ خان کے مرنے کی درد ناک خبر میڈیا پر آئی تو  بڑا دکھ ہوا کیونکہ ہم بچپن سے ان کی ادکاری سے متاثر رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ سامنے آرہی ہے کہ  مرحومہ کی موت کی اطلاع ایک ہفتہ وفات کے بعد  اس کے گھر سے تعفن پھیلنے پر ملی ۔ان کے رشتے دار نے دروازے توڑ کر  لاش باہر  نکالی ۔ خبر یہ ہے کہ اداکارہ تنہا رہ رہی تھی ۔جہاں ان کی اس طرح تنہائی میں موت سے پی ٹی وی کے سنہری دور  کا ایک عہد تمام ہوا  وہیں ان کی تنہا موت کے المیے سے بےشمار سوالات نے بھی جنم لیا ہے ۔عائشہ خان مشہور ٹی وی ادکارہ  خالدہ ریاست کی بہن تھیں اور ادکاری میں ایک اکیڈمی کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ پولیس کے مطابق ان کی موت کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا جب ان کی لاش دریافت کی گئی جس سے ان کی طویل تنہائی اور ممکنہ صحت کے مسائل  پر بھی سوالات اٹھ چکے ہیں کہ ہم اپنے عظیم فنکاروں کو ان کی زندگی میں کتنی اہمیت دیتے ہیں ؟ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ شو بز انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کی زندگی کا اختتام بہت دکھ بھرا ہوتا ہے ۔جب یہ شہرت کی بلندیوں پر ہوتے ہیں تو  ان کی خوبصورت شخصیت کے چرچے ہر جانب ہوتے ہیں اور یہ ہر محفل کی جان سمجھے جاتے ہیں  لیکن زندگی کے آخری لمحات میں یہ تنہائی ،بیماری اور کرب میں مبتلا ہوکر دنیا کی بےتوجہی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ان سے قبل مشہور ادکارہ روحی بانو بھی ایسی ہی کیفیت سے گزر چکی ہے اسی لیے کہتے ہیں کہ شہرت کی دنیا میں کوئی چراغ بجھتا ہے تو اکثر دھواں بھی نظر نہیں آتا ۔ وہ چمکتی اسکرین کی رونق تھیں اور اپنے ہر کردار میں اپنی بےپناہ صلاحیتوں کی وجہ سے جان ڈال دیتی تھیں ۔ان کے ادکاری اور ڈائیلاگ بےحد پسند کئے جاتے تھے ۔اپنی خاموش طبیعت کے باوجود  وہ بیک وقت مزاحیہ اور سنجیدہ کردار ادا کرنے میں مشہور تھیں ۔ماں کا  بہترین کردار  ادا کرنے والی عائشہ خان کی وفات کے ساتھ ہی پاکستان ٹی وی کا ایک ایسا  سنہری دور ختم ہو گیا ہے جو سنجیدہ فن اور وقار کا علمبردار تھا ۔عائشہ خان کی  شاندار اداکاری اور  فنی خدمات ،ان کی سادگی اور فنی خلوص ہمیشہ پاکستان کے ثقافتی ورثے کا حصہ رہے گا۔ان کی شخصیت کا خلا شاید ہی پورا ہوسکے گا ۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت فرماۓ اور سفر حقیقی میں آسانیاں پیدا کرۓ آمین ! یہ حقیقت بھی بہت افسوس ناک ہے کہ  ہم ایک دوسرے سے اتنے دور ہوتے جارہے ہیں کہ پڑوس کو پڑوس کی خبر تک نہیں ہو سکی ۔سوال یہ ہے کہ  کیا ہم فنکاروں کو صرف زندہ تالیوں کے لیے ہی یاد رکھتے ہیں ؟ ان کی تنہائیوں ،زوال  اور بڑھاپے کے ساتھی کیوں نہیں بنتے ؟ ایک خاموش ادکارہ کی یہ پراسرار  اور اذیت ناک موت ہمارے انسانی اور سماجی رویوں  اور تعلق پر ایک سوالیہ نشان ضرور ہے ؟آئیں مرحومہ کی ثقافتی اور فنی  خدمات کا اعتراف کرتے ہوۓ انہیں خراج تحسین پیش کریں اور درجات میں بلندی کی دعا کریں ۔آمین !

دکھ صرف ان کی ناگہانی  اور دردناک موت کا ہی نہیں  ہے بلکہ دکھ ان کی  اس تنہا ئی کی موت کا  بھی ہے اور ساتھ ساتھ  اپنے مشترکہ خاندانی نظام کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا  بھی ہے جو رفتہ رفتہ ہمیں تنہائی پسندی اور انفرادیت کی جانب دھکیل رہا ہے ۔ناجانے کیوں   ہم بحیثیت مسلمان اپنے طرز زندگی  کو چھوڑ کر مغربی اور یورپی طرز زندگی اپنانے کو فخر محسوس کرنے لگے ہیں ؟ اور بڑھاپے میں تنہا رہ جاتے ہیں ۔لبرلزم اور تنہائی پسندی کو پرموٹ کرنے والے بھلا کیسے مشترکہ خاندانی نظام کی خوش قسمتی کا اندازہ لگا سکتے ہیں  جہاں جب کوئی بیمار ہوتا ہے تو تمام گھر کے افراد ہی نہیں بلکہ پورا محلہ اس کے گرد ڈیرہ ڈالے رہتا ہے ۔عیادت کرنے والوں اور خریت پوچھنے والوں کا ایک ہجوم بیمار کے بستر کے قریب کھڑا  دکھائی دیتا ہے ۔ان کی صحت کی دعائیں کرتے ،ان کے لیے صدقہ خیرات کرتے ،ان کے سرہانے قرآن پڑھتے اور نماز حاجت پڑھتےیہ لوگ عزیز واقارب ہی نہیں ہوتے بلکہ ہمساۓ اور محلے دار بھی ہوتے ہیں ۔،جو صبح شام خریت بھی پوچھتے ہیں اور محلے مسجد میں دعائیں بھی کرتے ہیں ۔سوال یہ ہےکہ ہم مشترکہ خاندانی نظام سے دور کیوں ہوتے جارہے ہیں ؟ بلکہ ہم میں سے  اکثر تو اس نظام کی افادیت سے واقف ہی نہیں ہیں ۔ہمیں اپنے اس روائتی نظام پر توجہ دینے اور پھر سے اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ہمارے روائتی مشترکہ نظام زندگی  کی یہ خوبی ضرور ہے کہ ہم الگ الگ رہ کر بھی ایک دوسرےسے جڑے رہتے ہیں ۔ یہی ہمارے مشترکہ خاندانی نظام کی مضبوطی  اور رشتوں کی توانائی کا راز ہے  جو احساس دلاتا ہے کہ خاندان کی اکائی کیوں ضروری ہے ؟ ایک مشترکہ خاندان کیسے ایک مضبوط معاشرۓ کی بنیاد بنا رہتا ہے ؟ یہ کہنا کہ اب ہم پچھلی صدی کی روایات نہیں اپنا سکتے بالکل درست نہیں ہے ۔وہ اچھی روایات صرف ہم بھول چکے ہیں بس ذرا سا یاد کرنے کی ضرورت ہے ۔ہمیں جدید خطوط پر  استوار کرکے ان روایات کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا ہے ۔ہمیں ان روایات کو ڈیجیٹل طریقےسے اپنانا ہو گا  تاکہ  ترقی کے اس مصروف دور میں بھی  جاری رکھا جاسکا ۔روزصبح واٹس ایپ پر ایک  دعاکا میسیج ہی ہمیں ایک دوسرے کی خریت دے دیتا ہے ۔

مشترکہ خاندانی نظام ایک ایسا سماجی ڈھانچہ ہے جہاں کئی نسلیں ایک ہی گھر میں مل جل کر رہتی ہیں ۔یہ نظام خصوصا” جنوبی ایشیائی معاشروں میں عام ہے لیکن دنیا کے مختلف حصوں میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں ۔مشترکہ خاندانی نظام سماجی یکجہاتی کی حمایت کرتا ہے جہاں بزرگوں کی دیکھ بھال ،بچوں کی پرورش اور ان  کی رہنمائی  اور نوجوانوں کے لیے اولڈ ایج ہاوس سے ہٹ کر بھی ایک مضبوط سپورٹ سسٹم موجود ہے ۔یہ نظام معاشی استحکام  اور ثقافتی و اخلاقی اقدار کی  نئی نسل تک منتقلی  اور شخصیت سازی کا فریضہ ادا کرتا ہے۔تنہائی اور ذہنی دباؤ میں کمی کا باعث بنتا ہے ۔اکیلے پن اور ڈئپریشن  جیسے مسائل کے حل کے لیے خاندان کے افراد کو قریب تر کرتا ہے ،مشکلات میں باہمی مشورے اور ہمدردی سے پریشانیاں اور تنہائیاں دور ہو جاتی ہیں ۔یہ نظام بزرگوں کی عزت اور دیکھ بھال کو فرض سمجھتے ہوۓ اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے ۔خاندان کے افراد ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں  اور  گھریلو اور باہمی سماجی مسائل کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتا ہے ۔تہواروں ،شادیوں اور دیگر خوشی کے مواقع پر خاندان کے سب افراد کو مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جس سے رشتوں میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے ۔اگر چہ مشترکہ خاندانی نظام کے بے شمار فوائد ہیں لیکن اس کے لیے روداری ،برداشت اور باہمی احترام ضروری ہے بعض اوقات ذاتی آزاری یا تنازعات کی وجہ لوگ الگ ہونےلگتے ہیں لیکن اعتدال پسندی سے اس نظام کو برقرار رکھا جاسکتا ہے ۔آج کے جدید دور میں جہاں انفرادی زندگی اور راز داری عام ہو رہی ہے وہیں مشترکہ خاندانی نظام کے درمیان توازن بہترین راستہ ہو سکتا ہے۔مشترکہ خاندانی نظام سماجی ترقی میں روکاوٹ نہیں بلکہ اسے مضبوظ کرتا ہے ۔آئیں اپنے اس روائتی  نظام کو مضبوط کریں تاکہ ایسے تلخ واقعات اور کہانیاں پھر  جنم نہ لے سکیں اور تنہائی کا عفریت مزید کوئی جان نہ لے سکے ۔معاشرے میں ایسی خاموش اموات سے نجات مل سکے ۔اس کے لیے ہمیں اپنے بےحسی کے  انفرادی اور اجتماعی رویوں  پر بھی غور کرنا چاہیے ۔یقینا” ہمارےیہ   فنکار  بڑھاپے میں ہماری توجہ کے خصوصی مستحق ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی زندگیاں اپنے فن  کے لیے وقف کردی ہوتی ہیں ۔ذرا  اپنے اردگرد  نظر ڈالیں آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کتنے ہی ایسے بزرگ کیسی کسمپرسی  کے عالم میں تنہائی کا شکار آپ کے اور ہمارے منتظر ہیں ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.