حقہ، سگریٹ، تمباکو۔۔توبہ توبہ

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

4

ضلع راجن پور کی ایک تحصیل کا نام جام پور ہے اور آج کل میرا اس تحصیل میں آنا جانا لگا رہتا ہے اور جب بھی اس تحصیل میں جانا ہوا ہے جام جم کا خیال ضرور آیا ہے اور یہ بھی خیال آیا ہے کہ میں آج تک جام جم کیوں نہیں دیکھ سکا ویسے تو میں جام بھی نہیں دیکھ سکا اور نہ جانے کیوں جام کا سوچ کر ہمیشہ استغفراللہ پڑھا ہے۔ ایسا کیوں ہے ہر سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے اور بس چپ ہی بھلی۔ ہاں میں نے جام قوم کے کچھ افراد کو قریب سے ضرور دیکھا ہے اور جام صاحب کہتے ہی میرے دل ودماغ میں اللہ بخشے عدم مرحوم کے یہ اشعار فوری طور پر گھومنے پھرنے لگتے ہیں ( جام جب گل فروش ہوتا ہے۔۔کس کو توبہ کا ہوش ہوتا ہے۔۔۔اے عدم پہلی سی محبت میں ۔۔۔۔کتنا جوش وخروش ہوتا ہے) جوش ہوش اور خرگوش ہم قافیہ ہیں جب سے میں سن بلوغت کو پہنچا ہوں۔ جوش و خروش کی حالت زار سے تو میں مکمل طور پر آزاد رہا ہوں۔ تاہم میں نے خواب خرگوش کے مزے خوب لئے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی عملی زندگی میں تھوک کے حساب سے خواب دیکھے ہیں اور آج اگر میں یہ سارے خواب پاکستانی عوام کو سنانے بیٹھ جاوں تو یہ معصوم عوام پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کے خواب بھول کر میرا حقہ پانی بند کردیے گی۔ حقے سے یاد آیا جام پور میں جب مجھے تاحد نگاہ تمباکو کے کھیت نظر آئے تو ح حقہ کا دیا ہوا استاد مرحوم کا سبق یاد آگیا پھر تو پرانی ساری پیڑیں جاگ گئیں۔باپ دادا یاد آئے بلکہ پنڈتھاں کے سارے بابے یاد آگئے جن کی مرغوب خوراک حقہ پینا تھا۔ سائنسی ایجادات کی جب بھی تاریخ رقم کی جائیگی تو حقہ کے خالق کے ایصال ثواب کے لئے خوبصورت تحریر رقم کی جائیگی اور ہوسکتا ہے کچھ رقم ختم پڑھنے والے مولوی صاحب کے حوالے بھی کر دی جائے تاکہ ثواب میں دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو جائے
دیہات کا بھی ایک اپنا کلچر ہوتا ہے اور وہاں روزانہ کی بنیاد پر کلچرل شو ہر ڈیرے پر ہورہا ہوتا ہے۔ ڈیرہ کی کیمسٹری کا سب سے اہم کمپوننٹ حقہ ہوتا ہے اور حقہ تازہ کرنا سب سے اہم کام ہوتا ہے لیکن یہ کام ہر بندے کے بس کا روگ نہیں ہوتا کیونکہ حقے کو نہلا دھلا کر باقاعدہ تیار کرنا اتنا ہی ضروری ہوتا ہے جتنا کہ مردے کو تکفین اور تدفین سے پہلے غسل دینا ضروری ہوتا ہے۔ حقے کی تیاری میں دوسرا اہم کام تمباکو کا استعمال ہے۔ اچھے اور ماڑے تمباکو کی شناخت کے لئے ناک کا کھلا ہونا بہت ہی ضروری ہوتا ہے۔ بو اور خوشبو میں فرق کرنے والا ماہر تیاری حقہ تصور کیا جاتا ہے۔ پھر تمباکو کا میٹھا اور کڑوا ہونا بھی اہم شرط ہے۔ تمباکو کے میٹھا ہونے کی صورت میں دکاندار کی خوب ماں بھین ایک کی جاتی ہے لیکن یہ سارا کچھ اس بے چارے دکاندار کی عدم موجودگی میں کیا جاتا ہے اور دل ہی دل میں کیا جاتا ہے اس کو کہتے ہیں سانپ بھی مر جائے اور لٹھ بھی بچ جائے۔ دوسری صورت یعنی تمباکو کے کڑوا ہونے کے نتیجے میں تازہ گڑ کا استعمال اور پھر خشک لکڑی کی آگ کے کوئلے اور پھر جی داروں اور لمبرداروں کی بیٹھک۔ ہن تے ہووے گی گڑ گڑ گڑ اور محفل سج جائے گی اور کھلی گپ شپ۔ دنیا جہان کے قصے کہانیاں۔ سچ جھوٹ ایک ہی قطار میں اکٹھے ہاتھ باندھ کے کھڑے ہو جاتے ہیں اور چل سو چل۔ تمباکو کا ایک تو یہ استعمال ہے اور اسی استعمال پر ہر سیانا پینڈو مان کرتا ہے بلکہ اپنے آپ کو ہر حالت میں چوہدری سمجھتا ہے۔ تمباکو کا دوسرا استعمال سگریٹ۔ سگریٹ تو ایک مکمل صنعت ہے اور ہر غریب امیر اس سے استفادہ کرتا ہے۔ کیوں کرتا ہے اس کے جواب میں بھی بڑا تنوع ہے۔ گہری سوچ بچار، غم غلط کرنا، اچھا وقت گزارنا، قبض کا بہترین علاج بلکہ ساری پیٹ کی ہوا ایک ہی کش میں ہوا ہو جاتی ہے، تخلیقی لمحات کو موثر بنانے کا بہترین ذریعہ وغیرہ وغیرہ۔ کاروباری حضرات نے بھی تمباکو سے خوب پیسہ کمایا ہے ہاں دوسرا طبقہ اس کے استعمال کے زبردست خلاف ہے اور وہ تمباکو کی مخالفت میں اخیر قلابے ملانا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ پھیپھڑے،گردے، مثانہ اور پھر دل ہر چیز کے لئے زہر قاتل۔ سرطان کی بنیادی وجہ، منہ سے بو کا آنا اور ایسی حالت میں کوئی بھی نفیس انسان اپنے جیسے ہی انسان کو منہ نہیں لگاتا ان مضر اثرات کے لئے بھی وغیرہ وغیرہ۔ ابھی نقصانات کی فہرست اور طویل ہے تاہم کچھ قاری کو بھی تو کرنا ہے اور میرا فرض اولین ہے کہ میں قاری کو سوچنے پر مجبور کروں تاہم اس کے ہاں یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ “سوچی پیا تے بندہ گیا”۔ متذکرہ بالا بیماریوں کی فہرست میں بذریعہ سوچ بچار مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے اور بلا شک وشبہ ہوگا ۔ تمباکو، حقہ اور سگریٹ جتنے منہ اتنی باتیں ویسے حقہ پینے والوں کی باتیں ہی باتیں ہوتی ہیں کام کرنے والے کے پاس حقہ اور سگریٹ کے لئے نہ تو وقت ہوتا ہے اور نہ ہی پیسے۔ ایسا شخص نہ شاہ خرچ ہوتا ہے اور نہ ہی فضول خرچ ہوتا ہے ہاں اس کے تنگ دست ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے
ہم وکھری ٹائپ کے لوگ ہیں اور ہم نے حقہ سگریٹ میراث میں پایا ہے۔ اس میراث کی حفاظت کرنا ہمارے لئےہماری زندگی کی حفاظت کرنے کی طرح ضروری ہے۔ میں نے بھی اس فرض منصبی کو نبھانے کے لئے حتی المقدور کوشش کی تھی۔ ایک بات کی مجھے کبھی بھی سمجھ نہیں آئی ہے کہ ہر سگریٹ اور حقے کا شیدائی باپ یہ چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا نہ تو سگریٹ پیئے اور نہ ہی حقے کے قریب جائے۔ یہی میرے جیسے سارے نوجوانان ملک وقوم کا مسئلہ تھا اور ہم اپنے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.