عوام رُل گئے نفرتیں ختم کیجیے آگے بڑھیے

9

ہمیں معلوم ہے کہ قومی خزانہ نحیف و نزار ہے۔اس پر قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک پڑ چکا ہے مگر ہماری نئی حکومت نے انتخابی مہم کے دوران کچھ وعدے کیے تھے
لہذا اب جب وہ اقتدار میں آچکی ہے تو اسے اپنے ہر وعدے کو پورا کرنے کی طرف بڑھنا چاہیے انہیں یہ نہیں بتانا چائیے کہ آئی ایم ایف یہ کہتا ہے وہ کہتا ہے اسے فقط اپنے عوام کی تکالیف کو سامنے رکھنا ہے
آئی ایم ایف کو نہیں اگر وہ اس کی بات مانتی ہے اس کی شرائط پر من و عن عمل کرتی ہے تو لوگوں کی چیخ و پکار میں اضافے کا اندیشہ ہے ۔یہ آئی ایم ایف کسی حکومت سے مخلص ہوتا ہے نہ عوام سے یہ ترقی پزیر ممالک کو اپنی ڈگر پر چلاتا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گاکہ اس کا مطمعٔ نظر لوگوں کی فلاح و بہبود نہیں اپنے مخصوص مقاصد ہوتے ہیں لہذا عرض ہے کہ حکومت سوچ سمجھ کر معاشی حوالے سے فیصلے کرے اور اس پہلو کو ذہن میں نہ لائے کہ اس کا اقتدار ڈگمگا سکتا ہے یہ اس کے لئے آخری موقع ہے کہ وہ خود کو مستحکم کرتی ہے یا نہیں ۔وہ حالیہ عام انتخابات میں دیکھ چکی ہے کہ وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو عوام موافق نہیں بنا سکی ( ڈیرھ برس میں اس نے غریب عوام کو رلا دیا انہیں اپنے اثاثے بیچنے پر مجبور کر دیا تاکہ وہ زندگی کی نیا کو ڈوبنے نہ دیں ) لہذا اسے مخلوط حکومت بنانا پڑی ہے اس میں جو مشکلات اسے پیش آرہی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں خیر اب حکومت بن گئی ہے اور وہ متحرک بھی ہو گئی ہے مگر اس کے حرکت میں آنے کے انداز پر حزب اختلاف ناخوش ہے تا دم تحریر اب تو پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین سے ملاقاتوں کو بھی مشکل بنایا جا رہا ہے اُدھر کے پی کے کے وزیر اعلیٰ پر بھی نااہلی کی تلوار لٹک گئی ہے ؟ بہرحال
چونکہ موجودہ حکومت سویلین ہے اس لئے اسے ہر قدم پر سنجیدہ فہمی کا مظاہرہ کرنا ہو گا وہ حزب اختلاف کے اراکین ہوں یا اس کے عہدیدار ان سب سے نرم رویہ اختیار کرے اور جہاں تک ممکن ہو عوام کو ریلیف دے یہ درست کہ اُکھڑی سانسوں والی معیشت کو ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کیا جا سکتا مگر یہ ناممکن بھی نہیں ۔ایسا ہو بھی سکتا ہے ۔کیجری وال دہلی کے وزیر اعلیٰ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ انہوں نے دستیاب سرمایے سے اپنے لوگوں کو ایسی ایسی سہولتیں دے ڈالیں کہ ان کے سیاسی حریف دنگ رہ گئے ۔تین سو یونٹس بجلی مفت دے دی گئی تعلیم صحت کی تمام لازمی سہولتیں بھی مفت فراہم کر دی گئیں ۔بد عنوانی کا ایک ایسا میکنزم بنایا گیا کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا دراصل ان کی نیت صاف تھی لہذا حکومت مرکزی ہو یا صوبائی اگر وہ عوام کے لئے پر خلوص ہو کر ان کے لئے آسانیاں پیدا کرنا چاہتی ہے تو کوئی ایسی وجہ نہیں کہ وہ یہ نہ کر سکے ۔ ہمارا مشورہ ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنے صوبہ پنجاب میں مصنوعی مہنگائی پر قابو پانے کے لئے اقدام کرے اس کے لئے اسے ضلع تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دینی چاہیے جس میں سماجی شخصیات صحافیوں اور مختلف سرکاری محکموں کے اہلکاروں کو شامل کیا جائے کسی ایم پی یا ایم این اے کے لوگ اس سے دور رکھے جائیں یہ کمیٹیاں اس قدر با اختیار ہوں کہ وہ کسی بڑی سے بڑی شخصیت کی سفارش نہیں مانیں اگرچہ حکومت کے لئے یہ کام ذرا مشکل ہے مگر اسے تڑپتے بلکتے اور سسکتے عوام کو مہنگائی کے عذاب سے چھٹکارا دلانا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اس کے گُن گا سکیں بصورت دیگر اس کی مقبولیت مزید کم ہو جائے گی ۔
بہرکیف ہمیں یقین ہے کہ اہل اقتدار میں ایسے لوگ موجود ہیں جو عوام کی نفسیات سے آگاہ ہیں لہذا وہ انقلابی اقدامات کرکے ان کے دل جیتنے کی کوشش کریں گے اور یہ عذر نہیں پیش کریں گے کہ آئی ایم ایف کو بھی راضی رکھنا ہے۔اسکو راضی رکھنا ہے یا عوام کو اس کا فیصلہ اب انہیں کرنا ہو گا ۔عوام کی درگت بنانا ان کے لئے دیکھی ان دیکھی رکاوٹوں کا سبب بن سکتا ہے۔مکرر عرض ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت کے لئے یہ آخری موقع ہے اور یہ موقع اسے جس طرح ملا ہے وہ بخوبی جانتی ہے لہذا اسے حزب اختلاف اور عوام دونوں کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔
ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ اب روائتی سیاست کا دور نہیں رہا عوام کا شعور کسی دانشور یا کسی منجھے ہوئے سیاستدان سے کم نہیں بلکہ بعض اوقات ان سے زیادہ دکھائی دیتا ہے کہ انہوں نے جو عام انتخابات میں شعوری مظاہرہ کیا ہے اسے دیکھ کر اہل دانش اور تجزیہ کار حیران رہ گئے ہیں لہذا موجودہ دور یہ تقاضا کرتا ہے کہ رویے تبدیل کیے جائیں نفرت و حسد کی کھڑی دیوار کو گرا دیا جائے انتقامی جذبات کو ٹھنڈا کرکے محبت کی فضا قائم کی جائے بہت ہو گیا اب پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کرنے کے لئے جد وجہد کی جائے ۔
یہاں ہم یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے بانی چئیر مین اپنے اندر لچک پیدا کریں حکومتیں بن چکی ہیں ان کے کسی احتجاج سے وہ ختم نہیں ہونے والی ویسے بھی مجموعی طور سے عوام احتجاجی سیاست سے بیزار نظر آتے ہیں پنجاب کے لوگ تو اب بہت کم دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ وہ حکمرانوں کی ستم ظریفیوں پابندیوں اور روز مرہ مسائل سے سخت پریشان ہیں پھر انہوں نے( بانی چیئرمین ) نے اپنے کارکنوں کو منظم نہیں کیا ان کی جماعت میں ایسے لوگ جو شور شرابے سے لاتعلق رہنا چاہتے ہیں موجود ہیں وہ خود احتجاج کے لئے باہر آ سکتے ہیں نہ ہی دوسروں کو لا سکتے ہیں لہذا وہ آئین و قانون کے مطابق دھیرے دھیرے آگے بڑھیں تو بہتر ہو گا فی الحال انہیں طرز سیاست تبدیل کرکے عوام کو اور اپنے آپ کو سکھ کی چادر اوڑھا لینی چاہیے لوگوں کو طویل مدت تک سڑکوں پر لانا ان کی پارٹی کےلئے سود مند نہیں ۔ سیاست میں ہا ہا کار نہیں ہوتی حکمت عملیاں پالیسیاں اور منصوبے ہوتے ہیں لہذا انہیں فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئے سرے سےاپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنا چاہیے کسی کامیابی کے لئے چند قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے ۔اب گر وہ ڈٹے رہتے ہیں اور عوام کی حالت زار کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے تو لوگ آخر کار تھک جائیں گے بلکہ تھک چکے ہیں اور درپیش مسائل کا حل چاہتے ہیں ۔
حکمرانوں کی طرف سے بھی کوئی سکھ سنیہا آنا چاہیے کیونکہ یہ طے ہے کہ وہ خود حکومتی فرائض ادا نہیں کر سکتی اسے ہر گام مشکلات پیش آسکتی ہیں لہذا عقلمندی کا تقاضا ہے کہ فریقین مل کر ملکی بگاڑ کو ٹھیک کرنے کی جانب آئیں وہ سیاست بھی کریں اور ملک کی خدمت بھی لہذا ایک دوسرے کے قریب آئیں اس کے بغیر وطن عزیز کو مضبوط بنانا ممکن نہیں ۔یہ جو حکومت نت نئے شکنجہ پروگرامز متعارف کرا رہی ہے ان پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
حرف آخر یہ کہ ہمیں کچھ کچھ لگ رہا ہے کہ فریقین حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے موم ہونے جارہے ہیں اور اس سے نئی سویر کی توقع بھی کی جا سکتی ہے !

ناصف اعوان

19/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-12-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.