مُفلسی جب بھی انسانی روح میں پیوست ہو کر بدن کی خاک سے ٹکراتی ہے، اسے تار تار کر ڈالتی ہے، ایک ہنستے بستے جسم و جاں کو کائنات میں مجسمہ بنا دیا کرتی ہے۔ اُسے دنیا میں بے بسی کی چلتی پھرتی تصویر بنا کر رکھ دیتی ہے۔ یہ تو ازل سے کہانی چلی آ رہی ہے کہ بھوک اور پیاس کا کوئی دوست نہیں ہوتا، سب کی یاری سرمایے اور فروانی کے ساتھ ہوا کرتی ہے۔
کچھ عرصہ سے ہمارے ملک میں ایسے ایسے ہوشربا واقعات تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں کہ زباں پر لائے جائیں تو دل دہل جائیں، مگر افسوس بے بسوں کی فریاد یہاں کون سُنتا ہے؟ وہ خطّہ جہاں فیکڑی اور کارخانے کا وجود پہلے ہی کہیں موجود نہ تھا، اب وہاں جگہ جگہ خیراتی ادارے کُھول کر مزید مجبوروں کے فاقوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ عجب داستان اشک بار ہے کہ جسے خون سے لکھا جائے تو کم ہے، جن کے نام پر چندے بٹورے جا رہے ہیں، خیراتیں اکھٹی کی جا رہی ہیں، کھانے کھلائے جا رہے ہیں وہ تو غیرت کے مارے روٹی کے چند ٹکڑوں کی خاطر سسک سسک کر تہہ خاک چلے جاتے ہیں اور ان کے نام پر مانگنے والوں کی موج مستیاں لگی رہتی ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ آپ دینا چھوڑ دیں مگر لٹانا ہے تو اپنے ہاتھوں سے مجبوروں میں بانٹنے کا لطف اٹھا کر دیکھیں، آپ سے بیماریاں، پریشانیاں اور مصیبتیں نہ ٹلیں تو کہنا!
یہ کیسی بستی ہے میرے خدایا! تیرے نام لیوا تو دربدر چند ٹکڑوں کی خاطر مارے مارے پھر رہے ہیں اور تیرے نا فرمان ہر قسم کی عیش و عشرت میں مگن بدمست دکھائی دیتے ہیں، ہم نے تو یہاں تک دیکھا ہے ایک طرف پندرہ روپے کی روٹی کے لیے پورا گھر خود کشی پر مجبور تھا تو دوسری جانب پڑوس میں تین تین ہزار کے پیزے کھائے جا رہے تھے تو کہیں ہوٹلوں پر ایک ایک وقت کے کھانے پر پچاس پچاس ہزار لگائے جا رہے تھے۔
منافقت کی گندھی مٹی سے بھرے اس پتلے کو جب برصغیر کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پاک و ہند میں تقسیم کیا جا رہا تھا تو شاید فیصلہ ہو چکا تھا کہ یہاں چند ارباب اختیار کے ہاتھوں میں ہر آسائش دے کر باقیوں کو پائی پائی کا محتاج کر کے ایسا تگنی کا ناچ نچایا جائے گا کہ لوگ فلمی دنیا کو بھول جائیں گے اور زندگی کے کرب سے پگھل جائیں گے:
یہ چاہا تھا کہ پتھر بن کے جی لوں
سو اندر سے پگھلتا جارہا ہوں،
اس قدر ظلم کے پہاڑ ان پر گرائے جائیں گے کہ عید کے کپڑے مانگنے پر باپ بچوں کو زہر دے کر اور پھر خود بھی زہر کھا کر موت کے منہ میں چلا جائے گا، بہنوں کو حق وارثت سے محروم رکھ جائے گا، ان کی عزتیں غیر محفوظ ہوں گی، مائیں اس ڈر سے بچوں کو باہر نہیں کھیلنے دیں گی کہ کہیں کھلونے بیچنے والا نہ آجائے اور پڑوسیوں کے بچوں کے پاس دیکھ کر ان کے بچے بھی خریدنے کی فریاد نہ کر بیٹھیں۔
لوگ چائے پانی کے لیے عزتیں اور گردے بیچنے پر مجبور ہوں گے، کام نہ ملنے پر پہلے گھر والوں کو پھر خود کو خود کشی کرنے پر مجبور کر دیں گے۔ بے روزگاری کے باعث نوجوان منشیات کے عادی اور تعلیمی ادارے علم و ہنر کی بجائے جہالت اور بے روزگاری کے اڈے بن جائیں گے۔ بد امنی کے باعث جگہ جگہ موت رقص کرتی، انجان سایے کی طرح ساتھ گھوم رہی ہو گی، اس خطے میں بھی بعض لوگ نوابوں کی طرح حیات گزارتے ہوں گے، حیرت ہے؛ ان پر تُف ہے، ان پر دُکھ ہے۔ ان کا اخلاقی زوال یہ ہےکہ ایک روٹی کی حاجت تو وہ پڑوسی کی پورے نہ کر سکے اور خواہش اس دن شفاعت عظمی کی رکھتے ہیں ۔ارے! صاحبان ذی وقار معیار بدلو، سوچ بدلو، جو خود کے لیے پسند کرتے ہو، وہی دوسروں کے لیے کرو، آج سے تائب ہو کر اپنے اردگرد مجبوروں کی اپنے ہاتھوں سے بے لوث خدمت کر لو، ورنہ عدالت خداوندی میں تو کڑے فیصلے ہوں گے، آج دھوپ کے ڈر سے اے سی کے نیچے بھاگنے والے کل پیسنے میں شرابور مدد کے منتظر ہوں گے۔ اگر آج ہم نے کسی کی مدد نہ کی تو کل ہم بھی مدد کے لیے تڑپ رہے ہوں گے، ہائے کچھ کا یہاں مصائب کے ہاتھوں کلیجہ پھٹا، کچھ وہاں تڑپیں گے۔ حساب تو برابر ہونا ہے، ترازو میں تو بلآخر سب نے تلنا ہے۔
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے،
یہاں سوال یہ نہیں رہا کہ کون بھوکا ہے، سوال یہ ہے کہ کون اسے بھوکا دیکھ کر بھی بے حس رہتا ہے؟ وہ جو فٹ پاتھ پر اپنے بچوں کو جگا کر رزق کی تلاش میں نکلتا ہے، کیا اس کی دعائیں آسمان تک نہیں جاتیں؟ کیا وہ درد، جو اس کے سینے میں پل رہا ہے، خدا کے عرش تک نہیں پہنچتا؟
مگر یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ ترازو میں تو سب نے بالآخر تُلنا ہے۔ نہ خیرات کے نام پر مال بٹورنے والے بچے جائیں گے، نہ ان مجبوروں کی آہیں رائیگاں جائیں گی، جن کے چہروں پر غربت نے سوال بن کر بسیرا کر رکھا ہے۔ اصل نفع وہی ہے جو دل کی سچائی سے کسی بھوکے کو کھلایا جائے، کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھا جائے، کسی مجبور کی خاموشی کو سنا جائے۔ دنیا کے بازار میں ریٹ انسان کا نہیں، اس کے کپڑوں، اس کی سواری، اس کے سوشل میڈیا پروفائل کا ہوتا ہے۔ مگر اللہ کے میزان میں انسان صرف نیت سے پہچانا جائے گا۔ یہ دنیا تو ایک نصحیت اور عبرت کا مقام ہے جس کا یہ پیغام ہر روز ہمارے کانوں میں گونجتا ہے:
کون سے دن نئی قبریں نہیں اس میں بنتیں
یہ خرابا وہی عبرت کا مکاں ہے کہ جو تھا،