سینٹ مارٹن جزیرہ خلیج بنگال کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے اور میانمار کے شمال مغربی ساحل سے 8 کلومیٹر مغرب میں ہے۔اس جزیرے کا رقبہ کم و بیش تین مربع کلومیٹر ہے۔ یہ جزیرہ اپنی شاندار قدرتی خوبصورتی، نیلے پانیوں اور ہمہ رنگ سمندری زندگی کے لیے بہت مشہور ہے۔ یہ جزیرہ خاص طور پر سردیوں میں سیاحت کا ایک مشہور مقام ہے۔ یہاں کی آبادی تقریبا چھ ہزار افرادپر مشتمل ہے۔ ماہی گیری، چاول، ناریل کی کاشت، سیاحت اور سمندری گھاس کی برآمد ان کا زریعہ معاش ہے۔ یہ جزیرہ اپنے محل وقوع اور اقتصادی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔
1937 تا 1947 یہ جزیرہ برٹش انڈیا کا حصہ رہا۔ تقسیم کے بعد یہ پاکستان کے کنٹرول میں چلا گیا لیکن 1971 میں علیحدگی کے بعد یہ بنگلہ دیش کا حصہ بن گیا۔ بنگلہ دیش کے ساتھ سمندری حدود کے تنازعہ کے باعث میانمار بھی اس پر اپنا دعوی کرتا رہا ہے لیکن 2012 میں بین الاقوامی عدالت برائے سمندر (ITLOS) نے اس مسئلے کو حل کیا اور بنگلہ دیش میں اسکی اقتصادی حیثیت کو تسلیم کروایا۔
اس جزیرے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر یہاں فوجی اڈہ قائم ہو جائے تو اس جزیرے کو آبنائے ملاکا جو بحر ہند اور بحر الکاہل کے درمیان بحری جہازوں کے گزرنے کا مرکزی راستہ فراہم کرتی ہے اور اس طرح دنیا کے تین گنجان آباد ترین ممالک بھارت، انڈونیشیا اور چین کو منسلک کرتی ہے اور جسے زیادہ تر چینی اپنی نقل و حمل کے لیے استعمال کرتے ہیں پر نگرانی کی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ماضی میں یہ افوائیں بھی گردش کرتی رہی ہیں کہ امریکہ کی دلچسپی کے محل وقوع کے باعث یہاں وہ اپنی موجودگی قائم رکھنے کے لیے انڈیا، بنگلہ دیش اور میانمار کے کچھ حصوں پر قبصہ کر کے اک چھوٹی سی عیسائی ریاست قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی ہوتی رہی ہیں کہ امریکہ اس مقصد کے لیے یہاں سازشیں کر رہا ہے اور ان ممالک میں چلنے والی باغی تحریکوں اور باقی گروپوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ امریکہ کی منی پور اور آسام میں متحرک باغی گروپوں مثلاََ (KNF) کوکیچن نیشنل فرنٹ اور (ULFA) یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام کے درمیان خفیہ تعاون کی خبریں بھی منظرعام پرآتی رہی ہیں ۔
اس کے علاوہ سامنے آنے والی مختلف دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہاں عیسائی مشنریوں اور این جی اوز خفیہ طور پر مسلمانوں، ہندوؤں، بدھ مت اور دوسری اقلیتوں کو عیسائیت میں تبدیل کرنے کے لیے سرگرم ہیں تاکہ بھارت، بنگلہ دیش اور
میانمار کے کچھ حصوں پر محیط ایک عیسائی ریاست کے قیام کے لیے بنیادیں تیار ہوں۔ بنگلہ دیش میں کچھ ماہ پہلے شیخ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہونے کے پیچھے بھی انہوں نے امریکہ اور امریکہ نوازوں پر الزام لگایا تھا۔
مندرجہ بالا قیاس آرائیوں،افواؤں اور الزامات کو نظر انداز کرنا آسان نہیں۔ یہ اس خطے میں آباد تمام مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ بن گیا ہے۔ اگر یہ افوائیں درست ثابت ہوتی ہیں تو مستقبل میں اس کے وہ اثرات مرتب ہونگے جن سے خطے بالخصوص انڈیا، چین، بنگلہ دیش اور میانمار کی سیاست بلکہ سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔