سرشک آرزو۔۔۔۔ایک مطالعہ

روبرو۔۔۔۔محمد نوید مرزا

5

اردو شاعری مختلف مراحل طے کرتی ہوئی آج جس مقام پر پہنچ چکی ہے،وہاں ترقی کی بجائے تنزلی زیادہ نظر آ رہی ہے۔جدیدیت کے نام پر نت نئے تجربات ہو رہے ہیں۔سوچ سمجھ سے عاری ہو کر مبہم قسم کے خیالات کو شعری قالب میں ڈھال کر پیش کیا جا رہا ہے،جس سے قاری خاص طور پر نئی نسل گمراہی میں مبتلا ہو رہی ہے۔سچی شاعری وہی ہے،جس میں جذبہ،خیال آفرینی،روانی،مشاہدہ اور فکری پختگی کے ساتھ ساتھ کیسی حد تک کرافٹ بھی شامل ہو۔آج کل نہ سیکھنا بھی بہت بڑی کمائی کہا جا رہا ہے۔مطالعہ کا فقدان اور کلاسیکی شعراء کو نظر انداز کرنا عام ہو چکا ہے۔ایسے میں وہ لوگ غنیمت ہیں جو
روایت کا احترام کرتے ہوئے جدید طرز احساس کو شاعری کا حصہ بناتے ہیں۔
اس تناظر میں اگر ہمارے دوست جناب معظم علی خان کے پہلے شعری مجموعے،سرشک آرزو کا جائزہ لیا جائے تو وہ ہمیں روایت سے جڑے ہوئے ایک ایسے شاعر دکھائی دیتے ہیں،جو قدیم و جدید کے امتزاج سے عمدہ شعر کہہ رہے ہیں۔ان کی شاعری میں موضوعات خاصے زیادہ ہیں،تاہم محبت ان کا بنیادی موضوع ہے۔محبت اور اس سے وابستہ موضوعات پر ان کا لہجہ توانا ،شاندار اور دبنگ ہے۔بقول ان کے استاد آفتاب خان،،معظم علی خان نے مختلف انداز کے اشعار اپنی غزلوں میں کہہ رکھے ہیں۔جن میں ترفع،تنوع،سادگی،سلاست ،ہمہ گیریت،انفرادیت اور مختلف رنگوں کی قوس قزح آنکھوں سے دلوں میں اترتی دکھائی دیتی ہے۔ان کی غزل صرف غزل برائے غزل نہیں،غزل برائے زندگی کی حامل دکھائی دیتی ہے،،
زندگی سے بھر پور اس خوب صورت شاعری میں محبت کی خوشبو کئی رنگوں میں نظر آتی ہے آئیے ایک غزل کے چند شعر دیکھیں۔۔۔۔۔۔

میں کہاں اپنے بس میں رہتا ہوں
جب تری دسترس میں رہتا ہوں

جذبہء عشق ہوں لہو کی طرح
میں رواں ہر نفس میں رہتا ہوں

میرا صیاد کوئی اور نہیں
میں آنا کے قفس میں رہتا ہوں

معظم علی خان اپنی شاعری میں مشکل تشبیہہ و استعارات کی بجائے براہ راست بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔یوں ان کا سادہ انداز کا لہجہ قاری کو کسی الجھاؤ میں مبتلا نہیں کرتا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اس مجموعے میں نئی ردیفوں کی تلاش میں بھی سرگرداں رہے ہیں۔ان مختلف حوالوں سے چند شعر دیکھیں۔۔۔۔

میں نے مانا ہوں منانے میں برا
تو بھی تو ہے مان جانے میں برا

میرے اشکوں مسکرانا چھوڑ دو
کچھ تو ہوگا مسکرانے میں برا

میں اس کے ناز اٹھاتا تھا میری عادت تھی
میں اس کو پاس بٹھاتا تھا میری عادت تھی

مرے لباس پہ رہتے تھے خون کے چھینٹے
میں اس کے شہر میں جاتا تھا ،میری عادت تھی

معظم علی خان نے اپنی کتاب کا انتساب دوستوں،محسنوں،والدین ،شریک حیات اور اپنے بچوں کے نام کیا ہے۔اس طرح وہ رشتوں کی قدر کرنے والے اور اپنوں کی محبتوں سے جڑے ہوئے انسان نظر آئے ہیں۔ںچوں کے لئے کہتے ہیں،،
نگاہ شوق ملے سنج دل نواز ملے
مری دعا ہے تجھے زندگی کا راز ملے

بھٹک نہ جائے کسی بھی نظر کو تیرا جنوں
تری نوا میں نوائے سخن نواز ملے

معظم علی خان نے اظہار تشکر میں اپنے شعری سفر کے آغاز کے بارے میں بھی بتایا ہے ۔کتاب پر ممتاز راشد صاحب کی رائے بھی درج ہے اور یہ کتاب میرے عزیز دوست اشرف سلیم مرحوم کے ادارے دستاویز کی طرف سے ان کے بیٹے عدنان اشرف نے شائع کی ہے۔
پچھلے دنوں،سرشک آرزو کی تقریب پذیرائی ہوئی،جس کا اہتمام ادارہء خیال و فن اور جدت پسند مصنفین کے اشتراک سے الحمراء ادبی بیٹھک میں ہوا۔مجلس صدارت میں جناب راشد محمود ،جناب آفتاب خان اور راقم الحروف محمد نوید مرزا کے نام شامل تھے۔تقریب کے مہمانان خصوصی میں جناب انیس احمد،جناب ڈاکٹر ابرار احمداور محترمہ بیاء جی شامل تھیں۔دیگر اظہار خیال کرنے والوں میں جناب احمد حسن زیدی،جناب انجم شیرازی،جناب اظہر رفیق ،جناب شوکت علی ناز اور محترمہ روبینہ شاہین کے نام شامل ہیں۔تقریب کی نظامت جناب ممتاز راشد لاہوری نے خوبصورت انداز میں کی۔پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن حکیم سے ہوا اور یہ سعادت و نعتیہ کلام نصیر احمد نے پڑھا ،بعد ازاں ارسلان ارسل نے بھی شاعر کی نعت پیش کی۔صدر،مہمانان اور مقررین نے معظم علی خان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے انھیں ایک سادہ مگر پرتاثیر لہجے کا شاعر قرار دیا ۔بعد ازاں شعری نشست ہوئی جس میں حاضر شعراء شریک ہوئے۔۔۔۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.