مبروک و مرحبا!
جب کسی معاشرے میں اہلِ علم و قلم کی قدر دانی کی جاتی ہے تو یہ اس تہذیب کی بالیدگی اور فکری بالاتری کی علامت ہوتی ہے۔ اسی اعلیٰ روایت کا ایک روشن استعارہ آسٹریلیا ہاؤس کی وہ لائبریری ہے، جسے پاک آسٹریلیا فرینڈ شپ کے متحرک اور صاحبِ دل صدر، جناب ارشد نسیم بٹ نے اردو زبان و ادب کے درخشندہ ستارے، منشاہ قاضی کے نام سے موسوم کرنے کا اعزاز بخشا ہے۔
منشاہ قاضی کا شمار اُن اہلِ فکر و فن میں ہوتا ہے جو نہ صرف نثر میں بلاغت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہیں بلکہ ان کی تحریروں میں اردو تہذیب کی خوشبو، مشرقی اقدار کی خوش نوائی اور عصری مسائل کی نبض شناسی یکجا نظر آتی ہے۔ وہ مصنف بھی ہیں، کالم نگار بھی، اور فکری رہنمائی کا چراغ بھی۔ ان کی تحریریں دل میں اترتی ہیں اور ذہن کو جلا بخشتی ہیں۔ اُن کی نثر میں وہی شائستگی، وہی بانکپن، اور وہی حلاوت ہے جو لکھنؤی دبستان کی پہچان رہی ہے۔
یہ امر بجا طور پر قابلِ صد تحسین ہے کہ جناب ارشد نسیم بٹ نے اس نیک کام کا بیڑا اٹھایا۔ اصل مبارکباد منشاہ قاضی سے زیادہ خود ارشد بٹ صاحب کو ہے، جنہیں یہ سعادت نصیب ہوئی کہ ایک ایسا کام انجام دیں جو نہ صرف علمی ورثے کی پاسبانی کا مظہر ہے بلکہ اردو زبان کے فروغ کا عملی قدم بھی۔
آسٹریلیا میں اردو لائبریری کا منشاہ قاضی کے نام سے موسوم ہونا نہ صرف اردو زبان کے وقار میں اضافہ ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک چراغِ رہِ منزل بھی۔ منشاہ قاضی کی علمی و ادبی خدمات تاحیات یاد رکھی جائیں گی۔
یہ محض ایک نام کی تختی نہیں، ایک عہد کا اعتراف ہے۔