لاہور صرف اینٹوں کا شہر نہیں، یہ درویشوں، محبتوں اور روایتوں کا شہر ہے۔ یہاں دروازے کھلتے نہیں، بانہیں پھیلتی ہیں۔ یہاں چراغ صرف دیواروں پر نہیں جلتے، دلوں میں روشن ہوتے ہیں۔ اور ان دلوں کو روشن کرنے والا سب سے قدیم اور پرشکوہ تہوار ہے—میلہ چراغاں، جو شاہ حسین عرف مادھو لال حسین کے عرس پر گیارہ سے تیرہ اپریل تک سجتا ہے۔
یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جب لاہور اپنے ماضی کی آغوش میں سمٹ جاتا ہے۔ جب شالامار باغ خوشبوؤں سے مہکتا ہے، جب درگاہ سے دہلی دروازہ تک چراغ روشن ہوتے ہیں، اور فضا میں درویشی سرشاری رقص کرتی ہے۔ ایک انگریز سیاح لکھتا ہے کہ “میں نے کبھی ایسا میلہ نہیں دیکھا جہاں سب کچھ بے ترتیب ہو کر بھی اتنا منظم ہو، جہاں ایک فقیر کی قبر پر ہزاروں پروانے اپنی محبت کی شمعیں لے کر آتے ہوں”۔
بسنت کی پتنگیں، صوفیوں کے کلام، فقیرانہ جھوم، دیگیں، گُڑ، فالسے، اور لسی—یہ سب میلے کے لازمی رنگ تھے۔ مگر سب سے انمول رنگ وہ ہوتا جو شاہ حسین کی درگاہ پر چراغ جلانے والے چہروں پر جھلکتا—عقیدت کا، عشق کا، اور اپنائیت کا رنگ۔
مادھو لال حسین کی کہانی صرف ایک صوفی اور اس کے محبوب کی داستان نہیں، یہ دھرموں کے پار جانے والی وہ روشنی ہے جس نے ہندو مسلم کی تفریق کو مٹا دیا۔ شاہ حسین کی آنکھ میں جو آگ تھی، وہی آگ میلے کے دیوں میں جھلکتی ہے۔
یہ وہ آگ ہے جو نہ صرف دیے میں جلتی ہے، بلکہ دل میں دہکتی ہے۔ جو نہ لکڑی سے جلتی ہے، نہ تیل سے—بلکہ عقیدت، فانی ہونے کی تمنا، اور عشقِ بے خودی سے بھڑکتی ہے۔ وہی آگ جو شاہ حسین کی آنکھوں میں تھی، وہی جو اُس نے مادھو لال کی قربت میں محسوس کی، اور وہی جو ہر سال درگاہ کے سامنے دیے جلاتے ہوئے پروانوں کے چہروں پر نظر آتی ہے۔
یہ آگ کوئی معمولی شعلہ نہیں، یہ وہ آگ ہے جو فرقوں کو مٹاتی ہے، دلوں کو جوڑتی ہے، اور انسان کو انسان سے قریب کرتی ہے۔ یہ آگ جب جلتی ہے تو پورا لاہور اس کی تپش میں ایک لمحے کو ویسا ہی ہو جاتا ہے جیسا رنجیت سنگھ کے زمانے میں تھا—محبت، رواداری اور درویشی سرمستی کا ایک روشن خواب۔
مگر اب…؟
اب شالامار باغ کے پھول کم ہو گئے ہیں، درگاہ کے اطراف خاردار باڑ لگ گئی ہے، اور دھمالوں کی گونج میں سپیکروں کی کڑک شامل ہو گئی ہے۔ اب میلہ صرف خبر بنتا ہے، تہذیب نہیں۔ عقیدت کی جگہ سیلفیاں، اور دھمال کی جگہ شور نے لے لی ہے۔
پھر بھی، کچھ لوگ اب بھی آتے ہیں۔ ہاتھوں میں دیے، دلوں میں امید، اور قدموں میں ماضی کی مٹی لیے۔ وہ جب دیے جلاتے ہیں تو شاید شاہ حسین کے عشق کی وہ چنگاری دوبارہ دہکنے لگتی ہے، جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ لاہور صرف شہر نہیں، جذبہ ہے۔ اور میلہ چراغاں فقط رسم نہیں، ایک جلتی ہوئی آگ ہے—جو عشق والوں کے دل میں آج بھی زندہ ہے۔