راجہ صاحب کا کتب خانہ، کتب خانوں کا راجہ

تحریر: عاصم نواز خان طاہرخیلی

4

چند دن پہلے کچھ ضروری امور کے تحت حسن ابدال جانا ہوا۔ گھر سے ہی ارادہ کر کے نکلا تھا کہ کام نمٹاتے ہی محترم راجہ نور محمد نظامی کے پاس بھوئی گاڑ میں حاضری دوں گا۔ مقصدِ اولی خالصتاََ ان سے ملنا اور پھر ان سے اپنے تحقیقی کام کے سلسلے میں رہنمائی لینا تھا۔
موٹر بائیک پر غازی سے حسن ابدال اور پھر بوہی گاڑ نزد ٹیکسلا کا سفر اک تھکا دینے والا عمل تھا لیکن راجہ صاحب سے ملنے کی لگن اور تحقیقی کام کی جستجو کے ساتھ ساتھ خود راجہ نور محمد نظامی صاحب کا اس بڑھاپے میں بھی اپنے موٹر سائیکل پر تحقیقی و مطالعاتی مقاصد کے لیے دور دراز سفر کرتے رہنا شرمندہ کر گیا۔
بحرحال جیسے تیسے ان کے ٹھکانے تک پہنچا تو ان کی طرف سے خوش دلانا آؤ بھگت، مہمان نوازی اور ہزاروں کتب کی خوشبو نے جیسے ساری تھکن کو سکون میں بدل دیا۔ میں خود تحریر و کتب سے تھوڑا بہت وابستہ ہوں اس لیے مجھے بخوبی علم ہے کہ راجہ صاحب کا وقت کتنا قیمتی ہوگا۔ چونکہ میں نے جانے سے پہلے انہیں آگاہ کر دیا تھا اس لیے انہوں نے مکمل دستیابی دیتے ہوئے بھرپور وقت دیا۔سب سے پہلے میں نے اپنی اور محترم صابر علی خان چند کتب لائبریری کے لیے تحفہ پیش کیں۔ پھر کتب خانہ و میوزیم میں مرضی کی کتب اور اشیاء کے ساتھ ساتھ راجہ نور محمد نظامی کی عالمانہ نکتہ سنجی نے جہاں بہت سی تحقیقی گرہیں کھولیں وہیں وقت کے گزرنے کا احساس بھی نہ رہا۔ آپ کی طرف سے رات ٹھہرنے کے اصرار کے باوجود کچھ ضروری امور کے باعث ان سے دوسری ملاقات کی امید لیے کچھ سیراب اور کچھ تشنہ واپس لوٹنا پڑا۔
راجہ نور محمد نظامی سال 61-1960 میں بوئی گاڑ کے نامور بھٹی راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ شعور کی وادی میں قدم رکھتے ہیں انہیں تاریخ بالخصوص اپنے خاندان اور گاؤں کی بابت جاننے کا اشتیاق پیدا ہوا جو آہستہ آہستہ علاقہ کی تاریخ اور آثار قدیمہ ڈھونڈنے کی لگن میں تبدیل ہوا۔ ان کے ہمسائے میں علماء کا ایک بڑا خاندان بستا تھا۔بچپن میں ان گھروں میں آنے جانے سے کتب شناسی ہوئی جو تاریخ کے موضوع پر کتابیں پڑھنے اور اکٹھی کرنے کے شوق کا سبب بنی۔
قارئین کرام ! آپ خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ میری عمر یعنی ہچاس سال سے زیادہ عرصہ راجہ صاحب نے کتابیں اور نوادرات اکٹھی کرنے میں لگایا ہے۔ شوق کی انتہا دیکھیے کہ انہیں علاقہ میں جہاں بھی پرانی کتب اور نوادرات کی موجودگی کا علم ہوتا ہے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ پھر وہ اس چیز کو قیمتاََ یا کسی بھی تعلق کی بنیاد پر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کتاب اصل حالت میں دستاب نہ ہو تو اس کی فوٹو سٹیٹ کو عین کتاب کے مطابق تیار کر کے اصل کتاب کے حصول تک اس کی کمی پوری کرتے ہیں۔
اب تک ان کی لائبریری میں 23 ہزار کتب اکٹھی ہو چکی ہیں جن میں 6000 قدیم رسائل اور 600 قدیم قلمی مخطوطات بھی شامل ہیں۔ ان کے پاس پرنٹ شدہ کتب میں سب سے پرانی کتاب انجیل ہے جو 1611ء میں پبلش ہوئی اور قلمی لحاظ سے قدیم ترین کتاب قرآن مجید ہے جو خط ترکستانی یا خط بہار میں تحریر شدہ ہے اور 800 سال پرانا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس اندازاََ پاکستان کے تقریباََ ہر اس شہر، گاؤں، ضلع، تحصیل اور صوبہ کے متعلق تحریر موجود ہے جو تحریری شکل میں آچکی ہو۔ آثار قدیمہ کے حوالے سے لیکر برصغیر کی قدیم ترین تاریخ پر کتب تک کو انہوں نے اپنے پاس اکٹھا کر رکھا پے۔ پانچ سو قبل مسیح میں لکھا گیا ہیرو ڈوٹس کا سفرنامہ ہو یا تین سو قبل مسیح میں لکھی کوٹلا چانکیا کی تصنیف، اسی طرح قبل از مسیح کے ہونانی سیاحوں کے ہندوستان کی طرف سفر نامے ہوں یا بعد از مسیح کے چینی اور عرب سیاحوں کی رودادیں، پھر آگے چل کر برصغیر پاک و ہند کے مختلف ادوار جیسے ہندو شاہی دور، غزنوی، غوری، مغل، سلاطین دہلی، شیر شاہ سوری، درانی اور سکھ دور ہو یا برٹش دور سب میں لکھی گئی اس خطے کی تاریخ پر کتب کا کافی زخیرہ آپ کی لائبریری میں موجود ہے۔ مختلف قسم کے چار ہزار تزکرے اور پوٹھوہار و ہزارہ کے مصنفین کی لکھی تقریباََ پانچ ہزار کتب آپ اکٹھی کر چکے ہیں۔ سب سے بڑا اور سب سے چھوٹا لکھا گیا قرآن اور سونے، چاندی و لاجورد سے لکھے قرآنی نسخے بھی آپ کی لائبریری کی شان ہیں۔
نوادرات اکٹھی کرنے کے شوق میں آپ تقریباََ ساراعلاقہ چھان چکے ہیں۔ لاکھوں سال پرانے فوسلز، چار سے پانچ ہزار سال پرانے پتھر اور ہڈی کے اوزار، انڈس تہذیب سے متعلقہ برتن، ٹیکسلا کے بدھ دور سے متعلقہ نمونے،اسلامک دور کی ہتھیار، برتن، زیور، اسی طرح 800 قبل از مسیح میں استعمال ہونے والے دنیا کے پہلے سکے سے لیکر مختلف ادوار کے سکے، بنو امیہ و بنو عباس دور کے سکے اور پاکستان بننے کے اولین دور کے سکوں تک کے زمانے محفوظ کر رکھے ہیں آپ نے۔
یہ سب آپ نے بہت سی آسائشوں سے منہ موڑ کر جمع کیا ہے۔ ایک عدد موٹر سائیکل پر آپ نے بغیر گرمی سردی دیکھے سارا علاقہ صرف اس شوق و تلاش میں گھوما کہ کہیں سے کوئی پرانی کتاب یا چیز مل جائے تو حاصل کر لوں۔ اگر آپ یہ شوق نہ پالتے تو قیمتی گاڑی بنگلے اور آرام دہ زندگی سے لطف اندوز ہونا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ بحرحال عمر کے اس حصے میں بھی ماشاءاللہ آپکی اچھی صحت و یاداشت اللہ کا وہ تحفہ ہے جو ہر ایک کو عطا نہیں ہوتا۔ آپ کے اس جمع شدہ علمی خزانے نے آپ کو جو مقام و مرتبہ عطا کیا ہے وہ بڑے بڑے رئیسوں کو بھی میسر نہیں ہوتا۔
تاریخ، آثار قدیمہ، نوادرات، مخطوطات و لسانیات وغیرہ پر آپ کے تحقیقی مقالے ملک کے اہم رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔ ملکی سطح کے مختلف موضوعاتی اجلاس میں آپ اپنے مقالات پڑھ چکے ہیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.