کتاب میلہ اور صدر مسلم دانشوران کونسل کا کردار

منشاقاضی حسب منشا

4

دنیا میں صرف ایک چیز ایسی ہے جو ہر حال میں انسان کے لیے مناسب ہے اور وہ ہے اچھی کتاب جو بچپن، جوانی، بڑھاپے ، خوشی اور غم میں ہر وقت فیض رساں ہے ستار طاہر مرحوم نے کہا تھا کہ بعض کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ جنہوں نے پوری انسانیت کے ذہن کو غور و فکر پر آمادہ اور متاثر کیا ہوتا ہے ایسی کتابوں پر دنیا کی مختلف زبانوں میں ہمیشہ کام ہوتا رہتا ہے اور ان کتابوں کے بارے میں بڑے وثوق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتابیں لافانی ہیں اور ان کتابوں پر ہمیشہ نقاد ، محقق اور اہل الرائے اپنے اپنے زمانوں میں کام کرتے رہیں گے آج بین الاقوامی کتاب میلہ ایکسپو سینٹر میں مذکورہ بالا دانشوروں کے قول سچ ثابت ہوئے جن کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ کتاب سے محبت کرنے والے ہمارے دوستوں میں فاروق بھٹی کا نام سر فہرست آتا ہے جو ہمارے قومی کردار کے محل کی خشت اول آنے والی نسلوں کی اصلوں کی فصلوں کو شاداب کر رہے ہیں اور یہاں سب سے زیادہ جس سٹال پر مشرق اور مغرب کے درمیان ڈائیلاگ کی ایک رائے کے حوالے سے احمد الطیب شیخ ازھر شریف صدر مسلم دانشوران کونسل نے بے پناہ متاثر کیا اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا پیغام پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے اتنا اہمیت کا حامل ہے جس کا جتنا بھی ابلاغ کیا جائے کم ہے ، انہوں نے اتنے خوبصورت مضامین کے سلسلے شروع کیے ہیں جو میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر مبلغ کے لیے بہت ضروری ہیں ، اسلام میں جہاد کا مفہوم انہوں نے خوبصورت انداز میں تحریر کیا ہے نوجوانوں سے جو خطاب کیا ہے اور امن کی بات کی ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اتنا بڑا کام کر رہے ہیں ان کا ہوم ورک پہاڑ جتنا ہے عالمی امن و سلامتی اور انسانی بھائی چارہ کے ساتھ رہنے پر ایک ایسی دستاویز انہوں نے مرتب کی ہے اور اسے لوگوں میں مفت تقسیم کر رہے ہیں یہ بہت بڑا کام ہے ازھر شریف اور مسلمانوں میں اتحاد یہ اتنا خوبصورت سلسلہ مضامین ہے کہ جس کی انتہا نہیں ہے کیونکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج مسلمان جو انتشار کا شکار ہیں اور اس سلسلے میں احمد الطیب شیخ ازھر شریف کی یہ کاوش مجھے اللہ کی نوازش نظر آتی ہے اللہ تعالیٰ ان کو لمبی عمر دے اور جو کام یہ کر رہے ہیں میں سمجھتا ہوں ان کا ہوم ورک پہاڑ جتنا ہے لیکن ان کی جو تشہیر ہے وہ زرے جتنی ہے ۔ لوگوں کا کام ذرے جتنا ہوتا ہے لیکن وہ اپنی ذاتی تشہیر پہاڑ جتنی کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جب ان کے قریب جا کر دیکھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ

رخ روشن کا نہ کوئی پہلو روشن نکلا

میں جسے چاند سمجھتا تھا وہ جگنو نکلا

مصری سٹال پر ہمیں آفتاب و ماہتاب لوگ ملے اور یہ حقیقت ہے کہ انہیں جتنا بھی خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے اس سلسلے میں ہمارے میڈیا کا فرض بنتا ہے کہ ان کی آواز بن جائیں اور ان کی اواز حقیقی طور پر مسلم اتحاد کی آواز ہے ادیب کا قلم ہو یا خطیب کی نوا قوت عمل سے خالی ہو تو وہ صحرا بہ صحرا ثابت ہوتی ہے ، آج اس دشت جگر تاب کی خاموش فضا میں کسی ایسے نعرہ کم باذن اللہ کی ضرورت ہے جو خوابیدہ اور نیم مردہ روحوں کو حیات اجتماعی کے راز سے آشنا کر سکے جو ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کا گر سکھائے اور منتشر قوموں کو ایک مرکز یقین فراہم کر سکے اور اس کام کو سچی بات یہ ہے کہ مسلم دانشوران کونسل کے صدر احمد الطیب شیخ ازھر شریف بڑی خوبصورتی سے ابلاغ کر رہے ہیں ان کی معیت اور نیت میں یہ قافلہ ء نوبہار اپنی منزل مراد پر پہنچ کر دم لے گا اور دنیا جان لے گی کہ اتحاد المسلمین کے آسمان کے افق پر اتحاد و یقین کا سورج کیونکر طلوع ہوتا ہے ، یقین ہمیشہ صدیق پیدا کرتا ہے اور شکوک و شبہات نے ابو جہل پیدا کیے ہیں ، میں یہ سمجھتا ہوں شکوک و شبات کے تپتے ہوئے صحرا میں احمد الطیب شیخ ازھر شریف کی آواز باد صبح گاہی کا ایک خوشگوار جھونکا ہے ہم سب کو اس سلسلے میں نہ صرف ان کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہیے بلکہ پاؤں بھی مضبوط کرنے چاہیے کیونکہ پاؤں کی مضبوطی کا تعلق ثبات قلب سے ہے میں ممنون احسان ہوں جناب اعزاز علی شاہ میڈیا افیسر مجلس حکماء المسلمین کا جنہوں نے ہماری خوشبو کی طرح پذیرائی کی اللہ تعالی انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے یہاںب ہمارے پروفیسر ارشد صاحب بھی موجود تھے جن سے مل کر بڑی قلبی اور روحانی مسرت حاصل ہوئی میرے ہمراہ بین الاقوامی شہرت یافتہ موٹیویشنل سپیکر جناب راؤ محمد اسلم خان موجود تھے وہ بہت متاثر ہوئے اور یہ حقیقت ہے بڑی دیر تک مصر کی تہذیب کے حوالے سے باتیں ہوتی رہیں کوکب الشرق کا بھی ذکر چھڑ گیا پھر بات پہنچی مولانا ابوالکلام تک جنہوں نے ام کلثوم کے نغمات کو قلعہ احمد نگر کی تنہائیوں میں اپنا ساتھی بنا لیا تھا اور علامہ اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ یہ بھی ام کلثوم کے حلق سے نکلا اور خلق تک پہنچا اور آج جدید عہد کے ابلاغی ویپن نے اسے فلک الافلاک تک پہنچا دیا ھے کوکب الشرق کی مترنم آواز ہم عرصہ سے سن رہے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ام کلثوم کے نغمات کو عرب لوگ قہوہ خانوں اور جہاں جہاں وہ سن رہے ہوتے ہیں ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے ہوتے ہیں لیکن مغرب ام کلثوم کی آواز کو ایک محبت زدہ بلی کی گراھٹ سے تشبیہ دیتے ہیں ، میں تو ایک طویل عرصے سے کوکب الشرق ام کلثوم کا فین ہوں وہ مصر کی آواز ہے ۔ بات ہو رہی تھی کتاب بینوں اور کتابوں کے شائقین کی اور کتاب

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.