متنازع فیصلہ اور سچ بولنے کی جرات
رودادِ خیال
صفدرعلی خاں
دنیا میں جرم کے خاتمے کی خاطر کڑی سزائیں دینے کا رواج بہت قدیمی ہے ،جتنا سنگین جرم ہوگا اسی طرح انصاف کی فراہمی کے لئے تیزرفتار طریقہ کار اختیار کیا جاتا رہا ہے اس حوالے سے یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے ،پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سنگین جرائم پر ملڑی ایکٹ موجود ہے اور 1952ء سے ملڑی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتیں تقریبآ ہر حکومت نے قائم کی ہیں جس کے تحت انتہائی تیز رفتاری سے دہشتگردی اور غداری کے مجرموں کو کٹہرے میں لاکر عبرتناک مثال بنایا گیا ۔پاکستان ہی نہیں دنیا کے 36ایسے ممالک ہیں جہاں آرمی رولز کی خلاف ورزی پر فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی اجازت ہے ان میں پاکستان کے ساتھ چین ،ایران ،مصر،ارجنٹائن
،بحرین ،سری لنکا ،بنگلہ دیش ،سمیت کئی ممالک ہیں ۔1967ء کو پہلی بار فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی اجازت دی گئی ،1967ء کو پہلی دفعہ سیکشن 2 ڈی ون اورون ٹو آرمی ایکٹ کے اندر متعارف کروائے گئے اس میں 2ڈی ون یہ تھا کہ اگر کوئی شخص پاکستان آرمی کا ریگولر ایمپلائی نہیں ہے اور وہ ملڑی ایکٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسکے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا اور اگر کوئی سویلین سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے یعنی وہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرتا ہے ،حساس فوجی علاقے کی فوٹو گرافی کرتا ہے ،فوجی علاقے میں گھس کر کوئی نقصان کرتا ہے یا ملڑی کی کسی عمارت کو نقصان پہنچاتا ہے تو اسکے خلاف بھی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا ۔زبردستی کوئی فوجی علاقے میں آئے تو بھی اس کا ملڑی کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا ۔1968ءمیں ملٹری ایکٹ کے اندر ہونے والی ان ترامیم کیخلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا تو لاہور ہائیکورٹ نے ملڑی ایکٹ کو جائز قرار دیا .اسکے بعد یہ فیصلہ سپریم سپریم کورٹ میں چلاگیا اور پھر 1973 ء کا آئین بھی آگیا ،73 ء کے آئین میں آرٹیکل 8بنیادی حقوق سے متعلق ہے جس میں کسی بھی قانونی شق کو ختم کرنے کا طریقہ کار اس میں درج ہے ،اس وقت کے چیف جسٹس حمودالرحمان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی بنچ نے ملڑی ایکٹ کی ترامیم کو جائز قرار دیا ،1973ءکو سپریم کورٹ کے بنچ نے ملڑی ایکٹ میں فیصلہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ اس سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ آئین سے متصادم ہے ۔اسکے بعد جنرل ظہیر عباسی کے کیس میں بھی انکی اہلیہ نے اسی ملڑی ایکٹ کی ترامیم کو چیلنج کیا جس پر سپریم کورٹ نے ملڑی ایکٹ کی ان ترامیم کے حق میں فیصلہ سنایا ۔اسکے بعد یہ معاملہ 2007ء کو سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بنچ کے سامنے آیا ،اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے بھی ملڑی ایکٹ کی ان ترامیم کی توثیق کردی ۔
اسکے بعد آرمی پبلک اسکول پشاور حملے کے بعداسی تناظر میں ہونیوالی آئینی ترمیم کو چیلنج کیا گیا اس وقت پھر سپریم کورٹ نے اس آئینی ترمیم کیساتھ آرمی ایکٹ کی درج بالا تینوں شقوں کے حق میں فیصلہ سنایا ۔پھر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے دور میں اسی آرمی ایکٹ کی شقوں کو چیلنج کیا گیاجس پر سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجر بنچ نے ایک بار پھر آرمی ایکٹ کی ترامیم کے حق میں فیصلہ سنایا اور پھر اسی طرح 2021اور 2022ء میں بھی آرمی ایکٹ کی ترامیم کو جائز قرار دیا گیا اب جاکر 23اکتوبر کو سپریم کورٹ نے اپنے ہی لارجر بنچ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرتے ہوئے ملٹری کورٹس میں سویلین کا ٹرائل کالعدم قرار دے دیا۔فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں5 رکنی لارجربینچ نے کی، بینچ میں جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل 5 رکنی بینچ نے متفقہ طور پرکالعدم قرار دیا ہے تاہم آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی ون کو آئین سے متصادم 4 ججز نے قرار دیا ہے جب کہ جسٹس یحیٰی نے اس پر اپنی رائے محفوظ رکھی۔سپریم کورٹ کے اس مختصر بنچ نے بڑے بنچ کے خلاف فیصلہ سنانے کیلئے آئینی اور قانونی تقاضے بھی پورے نہیں کئے کیونکہ سپریم کورٹ کے 11رکنی بنچ کی طرف سے ملڑی ایکٹ کی تینوں شقوں کو جائز قرار دینے والے فیصلے کو کالعدم کرنے کی خاطر اس سے بڑا بنچ تشکیل دینا چاہئے تھا ۔دوسرا اس متنازع فیصلے سے سپریم کورٹ کی جانب سے ملڑی ایکٹ کی جن شقوں کو منسوخ کیا گیا ہے انکے تحت 1967ء سے دہشتگردوں کے خلاف ٹرائل کرکے سزائیں دی جاتی رہی ہیں ۔ان کی اب کیا حیثیت ہوگی ،اب اگر حالات وواقعات کی روشنی میں دیکھا جائے توفوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل کالعدم کرنا ایک انتہائی متنازع فیصلہ ہے جس میں 5رکنی بنچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے ملڑی ایکٹ کی تینوں شقوں پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ،موجودہ فیصلے کو سنانے والے چار ججوں میں سے قبل ازیں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر آرمی ایکٹ کی حمایت میں فیصلہ سنا چکے ہیں ۔اس فیصلے سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کے عام لوگوں کے لئے انصاف دینے کا طریقہ کار اور ہے جبکہ بااثر سیاستدانوں اور اشرافیہ کیلئے مختلف ہے ۔بات یہ سچ ہے مگر بقول شاعر ۔
تم نے سچ بولنے کی جرأت کی
یہ بھی توہین ہے عدالت کی۔