تسلسل سے پھیلتی کرپشن معاشرے کی تباہی کا سبب

پرواز خیال*تحریر۔۔۔عرفان حفیظ ملک

0

ہمارے پیارے وطن میں آپ جس طرف بھی نگاہ ڈالیں گے تو آپ ورطہ حیرت میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، کیونکہ یہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور آپ کو ہر شاخ پر ایک الو بیٹھا ہوا نظر آئے گا۔۔؟ اب آپ خود ہی اپنی چشم تصور سے دیکھ لیں کہ انجام گلستان کیا ہوگا۔۔؟ عمومی طور پر اکثر سرکاری ملازمین “لوٹ مار ” کو اپنے دفتری فرائض کا ایک لازمی جزو تسلیم کرتے ہیں اور انہیں نہ تو کرپشن کرنے کا کوئی ڈر یا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی انہیں اپنی آخرت کی فکر ہوتی ہے، اسی لیے وہ حرام کی کمائی کو اپنا پیدائشی حق تصور کرتے ہیں۔آجکل تمام سرکاری و نیم سر کاری ادارے انتظامی امور میں بالکل مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں اور وہ اپنے اپنے فرائض کو بخوبی انجام دینے سے قاصر ہو چکے ہیں۔ آپ ذرا اپنے ارد گرد ان کچھ مندرجہ ذیل اداروں کو ہی دیکھ لیں؛ ٹریفک پولیس، پولیس، کارپوریشن، انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ، عدالتی نظام، ہسپتال، اسکول، کالج، یونیورسٹی، کسٹم، واٹر بورڈ، واپڈا، سوئی گیس، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، این ایچ اے، فوڈ اتھارٹی، اے جی آفس، پاکستان ریلوے، پی آئی اے، پوسٹ آفس، آثار قدیمہ، اینٹی کرپشن، نیب، ایف آئی اے، سائنس اور ٹیکنالوجی، ریسرچ انسٹیٹیوٹ، کیمیائی ٹیسٹ لیبارٹریز، صوبائی اور وفاقی سیکرٹریٹ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ آپ کسی بھی ادارے کو کھنگال کر دیکھ لیں، آپ کو نہ صرف شرمندگی ہوگی بلکہ آپ کو بہت ذیادہ مایوسی کا بھی سامنا کرنا پڑے گا(بدقسمتی کے ساتھ)، کیونکہ ان سب اداروں کی کام کرنے کی اہلیت ہر گزرتے دن کے ساتھ تنزلی کا شکار ہیں اور ہمارے ارباب اختیار شترمرغ کی طرح اپنا سر ریت میں دبا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کو حالات کی نزاکت کا نہ تو کوئی احساس ہے اور نہ ہی اس سنگین ترین قومی مسئلہ کے ادراک کےلئے کوئی بھی ٹھوس اور جامع حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے۔ بالعموم تمام ارباب اختیار ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر سکون کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور صرف چکنے سیاسی بیانات دے کر ہماری قوم کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔۔؟ یہ سب لوگ اجتماعی طور پر ہمارے معاشرے کو تباہی اور انارکی کے جانب دھکیل رہے ہیں ۔پاکستان حکومتی اداروں میں ایماندارنہ اور شفاف طریقہ کار کے لحاظ سے مرتب کی گئی ایک سو اسی ممالک کی فہرست میں ایک سو چونتسویں نمبر پرہے ۔گزشتہ دس سالوں میں پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا جبکہ اس کے پڑوسی ملک بھارت میں کمی ہوئی ہے۔ البتہ گزشتہ سال کی نسبت پاکستان میں اس سال کرپشن میں کمی واقعی ہوئی ہے اور وہ اس فہرست میں تین نمبر اوپر چلا گیا ہے۔ملکی سطح پر بدعنوانی کے حوالے سے مختلف سروے قابل اعتبار قرار نہیں دیئے جاتے۔ ،اس طرح کی بدعنوانی سے ہونے والے حقیقی نقصان کی پیمائش کرنابھی اکثر مشکل ہوتا ہے اور یہ سرکاری طور پر بتائے گئے اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔اسی
طرح، معروضی طور پر بدعنوانی کی پیمائش کرنے کا ایک طریقہ بدعنوانی کے مجرمانہ الزامات کی تعداد کو شمار کرنا ہے۔ تاہم، یہ اس حقیقت کی وجہ سے غیر موثر ہو سکتا ہے کہ اصل بدعنوانی کے لیے فرد جرم کا تناسب انتہائی متغیر ہو سکتا ہے۔ اکثر بدعنوانی بغیر سزا کے رہ جاتی ہے اور اس لیے اس کو اس پیمانہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔ سبجیکٹیو اقدامات، جو عام طور پر سروے کے اعداد و شمار کے ذریعے تیار کیے جاتے ہیں، بدعنوانی کی پیمائش کے لیے ایک مفید ٹول ہو سکتے ہیں۔ ممالک کے درمیان موازنہ زیادہ جامع اور مستقل ہو سکتا ہے، حالانکہ اس ڈیٹا میں کافی حد تک تعصب موجود ہے اور ساتھ ہی اس موضوع کی نوعیت کی وجہ سے جس کی پیمائش کی جاتی ہے۔کرپشن کے بارے میں آگاہی مہم چلانا بہت ضروری ہے ، کرپشن کے باعث معاشرہ اختلاف، انتشار اور خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے۔کرپشن کا بنیادی سبب دنیاوی عیش و عشرت میں خوب سے خوب تر کی دوڑ ہے۔اس لئے کرپشن کے نقصانات کے بارے میں عوام کو آگاہ کرکے اسکی روک تھام بھی ممکن ہے ۔میرے نہایت ہی محتاط اندازے کے مطابق، اگر ہم آج بھی اس بات کا ارادہ کرلیں کہ ہم نے بحیثیت قوم اپنے اداروں اور معاشرتی بگاڑ کی اصلاح کرنی ہے تو پھر بھی اس سارے پراسیس کا پھل ہمیں 15 سے 20 سالوں کے بعد ہی نظر آئے گا۔ تب تک ہم تو شاید اس جہاں میں نہ ہوں لیکن ہماری اولادیں اور آنے والی نسلیں ضرور مستفید ہوں گی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.