لمحوں کا زہر : نواب ناظم

تحریر : رشید سندیلوی

0

نومبر 2024 کی بات ہے کہ میرے دیرینہ دوست غلام محمد میو، فارن ٹور سے واپسی پر میرے گھر تشریف لائے۔ میں نے انہیں اپنی نئی کتاب “معکوس” پیش کی۔ وہ بہت خوش ہوئے اور فوراً اپنی گاڑی سے اپنی تصنیف “میو سپوت” اٹھا کر میرے حوالے کر دی۔ میں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا۔ اس کتاب کے ذریعے مجھے پہلی بار نواب ناظم کے بارے میں جاننے کا موقع ملا، جنہوں نے میرے دوست غلام محمد میو پر یہ کتاب تحریر کی تھی۔ میں کتاب کی طرزِ تحریر سے متاثر ہوا اور اس پر ایک مختصر تبصرہ لکھ کر فیس بک پر پوسٹ کر دیا۔

اگلے دن نواب ناظم صاحب کا فون آیا۔ انہوں نے اپنا تعارف کرایا اور میرے تبصرے کی درخواست کی، جو میں نے انہیں بھیج دیا۔ اگلے دن یہ تبصرہ روزنامہ “سسٹم” اور روزنامہ “باڈر لائن” میں شائع ہو گیا۔ نواب صاحب لاہور کے مذکورہ اخبارات کے ایڈیٹر ہیں۔ اس طرح ان سے میرا تعلق قائم ہوا۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنی سات کتابیں بھیجیں، جن میں ان کے دو شعری مجموعے بھی شامل تھے۔ ان کی تخلیقات دیکھ کر ان کے ادبی قد کاٹھ کا اندازہ ہوا۔ اب میں ان کے پہلے شعری مجموعے “لمحوں کا زہر” پر تبصرہ کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

نواب ناظم کا شعری مجموعہ “لمحوں کا زہر” ان کی فکری بالیدگی، جذباتی شدت اور فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ مجموعہ ان کے گہرے مشاہدے، زندگی کے نشیب و فراز کے تجربات اور انسانی جذبات کے لطیف احساسات کو شاعری کی صورت میں قاری کے سامنے پیش کرتا ہے۔ نواب ناظم کی صحافتی بصیرت اور ادبی مہارت ان کے اشعار میں نمایاں نظر آتی ہے، جس سے ان کی شاعری کو ایک خاص معنویت اور گہرائی حاصل ہوتی ہے۔

یہ مجموعہ مختلف اصنافِ سخن کا حسین امتزاج ہے، جس میں مناجات، نعتیں، غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ آغاز مناجات سے ہوتا ہے، جس میں شاعر کا عجز، دعا کی تاثیر اور روحانی سکون جھلکتا ہے۔ اس کے بعد عشقِ مصطفیٰ ﷺ میں ڈوبی ہوئی نعتیہ شاعری سامنے آتی ہے، جو عقیدت اور والہانہ محبت کا عکس ہے۔ ان نعتوں کے الفاظ میں سادگی، سچائی اور گہری روحانی وابستگی نمایاں ہے، جو قاری کے دل میں محبت رسول ﷺ کے جذبات کو مزید مہمیز دیتی ہے۔

نواب ناظم کی غزلوں میں انفرادیت اور تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ روایتی غزل کی کلاسیکی چمک دمک کو برقرار رکھتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ ان کی غزلیں محض جذبات و احساسات کا بیان نہیں بلکہ زندگی کی سچائیوں کا آئینہ ہیں۔ ان کے اشعار میں سماج کی ناہمواریوں، انسانی رشتوں کی پیچیدگیوں اور داخلی جذبات کی عکاسی بخوبی ملتی ہے۔

نظموں کی بات کی جائے تو نواب ناظم کے اس مجموعے میں کئی خوبصورت اور متاثر کن نظمیں شامل ہیں۔ ان نظموں میں ایک فکری گہرائی اور جذباتی شدت محسوس کی جا سکتی ہے۔ وہ الفاظ کے برتاؤ میں نہایت مہارت رکھتے ہیں اور شاعری میں معنویت کے ساتھ ساتھ حسن اور چاشنی کا بھی بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ ان کی نظموں میں زندگی کی حقیقتوں، امید و ناامیدی، روشنی و تاریکی، عشق و محبت اور انسانی نفسیات جیسے موضوعات نمایاں ہیں۔

ان کے کلام کا سب سے نمایاں پہلو سادگی اور روانی ہے۔ مشکل الفاظ یا پیچیدہ ترکیبات سے گریز کرتے ہوئے وہ اپنی شاعری کو عام فہم رکھتے ہیں، لیکن ساتھ ہی اس میں گہرائی اور اثر انگیزی برقرار رہتی ہے۔ ان کی شاعری میں داخلی کرب، درد، احتجاج، معاشرتی ناہمواریوں پر تنقید اور اصلاح کی جھلک نظر آتی ہے۔ ان کے ہاں زبان کی چاشنی، بیان کی روانی اور خیالات کی پختگی ایک خوبصورت امتزاج کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔

یہ مجموعہ محض شاعری کی کتاب نہیں بلکہ ایک عہد کی ترجمانی ہے، جس میں نواب ناظم نے اپنے محسوسات، تجربات اور مشاہدات کو شعری قالب میں ڈھال کر قاری تک پہنچایا ہے۔ “لمحوں کا زہر” نواب ناظم کے فکری ارتقا، ان کے جمالیاتی ذوق اور فن پر عبور کا بہترین نمونہ ہے، جو اردو ادب کے قارئین کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ثابت ہو سکتا ہے۔

نواب ناظم صاحب علامہ ذوقی مظفر نگری کے شاگردِ رشید ہیں۔ انہوں نے نواب صاحب کے ادبی ذوق کو جلا بخشی اور ان کے فیوض و برکات سے نواب ناظم کی شاعری میں پختگی اور مہارت پیدا ہوئی۔ شاعری اس وقت تک اپنا دریچہ وا نہیں کرتی جب تک فنی مہارت جزو جاں نہیں بن جاتی۔ خدا داد صلاحیتیں اپنی جگہ ہیں لیکن زبان و بیان اور بحر و اوزان کے علم کے بغیر مکمل اور پورا شعر کہنا محال ہے۔ علامہ صاحب نے انہیں زبان و بیان اور بحور و اوزان میں تاک کر دیا۔ نواب ناظم صاحب اپنے اظہارِ تشکر میں اعتراف کرتے ہیں: “استاد محترم علامہ ذوقی مظفر نگری صاحب جن کی شفقت و محبت نے میرے ادبی شعور کو جلا بخشی اور مجھے شعرا کرام کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔ استادِ محترم کا تا حیات مقروض رہوں گا۔”

نواب ناظم صاحب نے مشکل تراکیب، مبہم علامتوں اور دقیق استعاروں سے اجتناب کرتے ہوئے سادہ و سلیس زبان کا استعمال کیا ہے، جس سے ان کی شاعری عام فہم اور پر کشش بن گئی ہے۔ وہ مسلسل تگ و دو سے اس اسلوب کو پانے کے قریب پہنچ گئے ہیں جو ان کی پہچان ہو گا۔ جناب عابد حسین عابد اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: “یہ ہمارا ترقی پسند تحریک کا فطری اتحادی ہے۔ فکر اور شعور کا راستہ کبھی کمزور نہیں پڑتا۔ جس دن لوگوں کی بڑی تعداد نے اس فکر سے رشتہ استوار کر لیا، کسی مصلحت کو آڑے نہ آنے دیا، اس دن ہم اس سماج کو بدلنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔” نواب ناظم کی شاعری اسی سماجی تبدیلی کی خواہش کے گرد گھومتی ہے۔ ان کا شعری فلسفہ شعر برائے شعر نہیں بلکہ اپنے اندر عام انسان کی خوشحالی اور تبدیلی کا خواہاں ہے۔

نواب ناظم نے شاعری کسی حجرے یا غار میں بیٹھ کر نہیں کی۔ انہوں نے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.