مشرف مبشر کی تخلیقی کاوشیں۔۔۔۔

روبرو۔۔۔۔محمد نوید مرزا

0

افسانہ یا کہانی لکھنا ایک فن ہے۔۔۔اس شعبے میں درجہء کمال حاصل کرنے میں عمریں لگ جاتی ہیں۔ایک اچھے تخلیق کار کو اپنی کاوش کو بہتر انداز میں پیش کرنے کے لئے خیال آفرینی،بہترین لفظوں کے انتخاب اور زبان و بیان پر حتی الامکان دسترس حاصل کرنا ہوتی ہے۔ہمارے اردگرد بہت سی کہانیاں بکھری پڑی ہیں ،جو ایک تخلیق کار کے قلم سے جنم لے کر شاہکار کے درجے تک پہنچتی ہیں۔افسانے علامتی بھی ہوتے ہیں اور سیدھے سادھے بیانیہ انداز میں بھی لکھے جاتے ہیں۔اس تناظر میں اگر محترمہ مشرف مبشر کی کتاب،برکھا کی بدلی کو دیکھا جائے تو ہمیں ان میں سادگی،روانی اور بے ساختگی کے علاؤہ بات کو براہ راست کہنے کا ہنر نظر آتا ہے۔وہ افسانے میں علامتی انداز نہیں اپناتیں بلکہ زندگی کے بڑے بڑے مسائل کو انتہائی سادگی اور خوبصورتی سے قارئین کے سامنے میں پیش کر دیتی ہیں۔یوں ان کی تحریروں میں عام قاری بھر پور دلچسپی لیتا ہے اور وہ بڑے سبھاؤ کے ساتھ لکھتی چلی جاتی ہیں۔بقول ڈاکٹر رشید امجد،،برکھا کی رت مشرف مبشر کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔افسانے کی دنیا میں انھوں نے پہلا قدم بیانیہ انداز میں رکھا ہے ۔چھوٹے چھوٹے تجربے،ننھے منے جذبے اور سوتے جاگتے لمحے ان کہانیوں کی اساس ہیں۔،،
گیارہ افسانوں پر مشتمل اس کتاب میں مصنفہ زیادہ تر خواتین کی زندگی کے نشیب و فراز کا احاطہ کیا ہے۔مصنفہ کی تخلیقی ہنر مندی ان کے ہر افسانے میں جھلکتی ہے۔وہ اپنی ہر تحریر کا آغاز اور اختتام خوب صورتی اور چابکدستی سے تحریر کرنے پر قادر ہیں۔انھیں یہ ہنر عطائے خداوندی سے ملا ہے۔اپنے بارے میں لکھتے ہوئے فرماتی ہیں،،
میں نے سکول کی کلاسوں میں ہی تمام خواتین کو پڑھ لیا تھا۔سجاد حیدر،نیاز فتح پوری،ایم اسلم ،حجاب امتیاز علی،عصمت چغتائی ،قرۃالعین حیدر کی کتابیں بہت اچھی لگتی تھیں،،
مزید لکھتی ہیں۔۔۔بانو قدسیہ اور اشفاق احمد کی تحریروں کا مطالعہ کرتے وقت محبت بھی ملتی ہے۔انسانی نفسیات کی پرتیں بھی کھلتی جاتی ہیں اور فلسفیانہ سوچیں بھی ابھرتی ہیں،،
میرے خیال میں مشرف صاحبہ نے خواتین کے مسائل کی عظیم ترجمان رضیہ بٹ کا مطالعہ بھی کیا ہو گا۔رضیہ بٹ عورت کے دکھوں سے آشنا تھیں۔ان کے قلم میں بلا کی روانی تھی۔مشرف صاحبہ کی شاید پشاور میں رہتے ہوئے ہوئے ان سے ملاقات بھی ہوئی ہو گی ۔رضیہ صاحبہ ایک طویل عرصہ پشاور رہی ہیں۔مشرف صاحبہ بھی رضیہ بٹ کی طرح خواتین کے مسائل سے آگاہ ہیں۔ان کابرق رفتار قلم گھروں کی چھوٹی چھوٹی رنجشوں ،غموں اور خوشیوں کی بیک وقت ترجمانی کرتا ہے۔جس کے لئے وہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔
افسانوی کی اس کتاب کے علاؤہ ان کی شاعری کی کتاب،تاریک اجالے اور سفر ناموں کی کتابیں ولایت چلتے ہیں،بوستان ایران،اور ویلز دلآویز بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔زیر نظر کتاب ،ولایت چلتے ہیں۔ان کا شاندار اسلوب میں لکھا گیا سفر نامہ ہے۔کتاب کا انتساب امیر شہر کے غریبوں کے نام ہے۔کتاب میں مختلف عنوانات کے تحت تحریریں شامل کی گئی ہیں،جن کو پڑھ کر قاری خود کو ولایت میں گھومتا ہوا محسوس کرتا ہے۔مصنفہ نے سفر نامہ نگاری میں بھی اپنی تحریر کی خوبصورتی اور مہارت سے قاری کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا ہے۔بقول جناب نثار ترابی،،مشرف مبشر صاحبہ ایک اسم با مسمی سفر نامہ نگار ہیں،یوں کہ جس طرح ان کے نام میں غنائی کیفیت بسی ہوئی ہے اسی طرح ان کے نغمہ بار اسلوب میں ایرانی ثقافت کی کلاسیکی اور مذہبی مطالعاتی جھلک اور گوروں کے دیس کی آگہی کا فیضان رچا بسا ہے،،
ترابی صاحب کی یہ سطریں محترمہ کو بھر پور خراج تحسین ہے۔میں اپنی طرف سے بھی مشرف مبشر صاحبہ کی علمی و ادبی کاوشوں پر انھیں بھر پور مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔۔۔۔بہت سی دعائیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.