دسمبرکا مہینہ اور خود احتسابی کا عمل

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

4

دسمبر کا مہینہ اف اللہ کتنا خوبصورت ہے۔ ایئر کنڈیشن کے بغیر ہی کپکپاہٹ اور شدت سردی کی وجہ سے سی سی کی آوازیں۔ کوئی لحافوں میں ہے، کوئی رضائی میں محفوظ مقام پر تو کوئی سڑک کنارے بے یارومددگار۔ معاملہ تو بڑا نازک ہے اور نازک صورتحال سے بچنے کے لئے محتاط رویہ ہی بہتر ہے۔ جولوگ بجلی کے استعمال میں محتاط ہوتے ہیں وہ بتدریج مالی طور پر مستحکم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ بجلی بچا کر اپنے ملک کا بھی فائدہ کیا جاتا ہے۔ سٹیٹ اور شہری دونوں موج میں۔ دسمبر میں تو معاملہ بالکل ہی مختلف ہوتا ہے بجلی کا استعمال نہ ہونے کے برابر بلکہ بجلی نہ بھی ہو تو کام چل جاتا ہے۔ موجاں ای موجاں۔ ہم نے دسمبر کی سردی اور جوانمردی
کے گھوڑے بھی سوچ کے کلے کے ساتھ باندھنے کا مصمم ارادہ کرلیا ہے اور انتہائی سنجیدہ رہنے کا وعدہ کرلیا ہے تاہم وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ وفاشعاری کے ثمرات ناقابل بیان ہیں جس جس نے اپنے ملک وقوم سے وفا کی ہے ان کی چھاتیوں پر ملک کے سب سے بڑے ایوارڈ سجے ہیں اور جس جس نے ماں دھرتی کا سودا کیا اس نے منہ کی کھائی ہے۔ 16 دسمبر اور پاکستان۔ اف اللہ ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے ہیں۔ دشمن تو پھر دشمن ہوتا ہے۔ جب اپنے بھی ایک دوسرے سے کھچے کچھے رہنے لگ جائیں تو پھر سب کی مت ماری جاتی ہے۔ طعن وتشنیع، گلے گلوچ، الزام تراشیاں، اونچا نیچا دکھانے کی پالیسی، ہوس اقتدار اور پھر میں نہ مانوں۔ انا کے گھوڑوں پر چڑھنے والے اکثر اکھڑ گھوڑوں کے قدموں میں آگرتے ہیں اور پھر کچھ دیر تک تو مت بالکل ہی ماری جاتی ہے اور پھر اس کے بعد پانی پل کے نیچے مکمل طور پر گزر چکا ہوتا ہے۔ گزر جانے والوں کا واپس آنا ناممکن ہے حالانکہ یہ دنیا امکانات کی دنیا ہے اس کے باوجود استثنیات کی اپنی ایک کیمسٹری ہے اور جا کر واپس نہ آنے والوں کی بھی ہسٹری ہے اور اس ہسٹری کا دامن ون پونے واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ واقعات ہی ہم پر ماضی کے دریچے وا کردیتے ہیں اور ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پھر مجبور آدمی تو کچھ بھی کر سکتا ہے ہاں جب وہ اپنے آپ کو بالکل ہی بند گلی میں محسوس کرتا ہے تو آہ وبقا اور بسا اوقات خود کشی۔ موخرالذکر ناکام اور نامراد لوگوں کا کام ہے۔ ہمت مرداں مدد خدا۔ محنت، کوشش، جدوجہد اور ریاضت کامیابی کی ضمانت ہے۔ متذکرہ بالا ساری باتیں سوچ بچار کے نتیجے میں ہوتی ہیں اور نتیجہ اچھا آنے کی صورت میں مبارک بادیں ہی مبارک بادیں نہیں تو مایوسی غیر یقینی اور افسردگی(دس میں کی پیار وچوں کھٹیا)
دسمبر کا مہینہ اس لحاظ سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے دوران ہوشمند لوگ کیا کھویا کیا پایا کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اور وہ کسی کے نہیں اپنے اندر جھانک کر دیکھتے ہیں اور اندر سے ان کے سامنے پلس مائنس کے ایک تفصیلی جائزے کی شیٹ سامنے آجاتی ہے۔ صوفیاء کے ہاں نرا نذر نیاز والا معاملہ ہی نہیں تھا وہ اصل بات سے بخوبی آگاہ تھے۔ اسی لئے سلطان باہو نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ( تیرے اندر آب حیاتی ہو) علامہ محمد اقبال نے فرمایا(اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی) اور راقم الحروف نے بھی کچھ یوں محسوس کیا( میں نے من میں ڈوب کے دیکھا۔۔۔یہ تو رب کا گھر لگتا ہے) رب کا گھر ہی تو حقیقت ہے اور باقی سب مجاز۔ بسا اوقات بذریعہ مجاز حقیقت تک پہنچا جا سکتا ہے لیکن ایسی صورتحال میں بھی اپنے اندر جھانکنا پڑتا ہے۔ دسمبر ہر انسان کو دعوت فکر دیتا ہے کہ آپ کی زندگی میں سے ایک سال اور کم ہو گیا ہے اور تو نے ابھی فلاں فلاں کام کرنا ہیں اور تیری گذشتہ زندگی کی کامیابی کا انحصار مذکورہ کاموں کی تکمیل پر ہے۔ بات احساس ذمہ داری کی ہے( جو زمانے میں ہمت نہ ہارے اپنی تقدیر خود جو سنوارے۔۔۔۔اس جہاں میں اسی کے ہمیشہ کامیابی قدم چومتی ہے) ہمت، تقدیر سنوارنا، جہاں میں اور کامیابی کا قدم چومنا ایک کامیاب زندگی گزارنے کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ جنوری سے دسمبر کا سفر۔ کٹھن، دشوار، پیچیدہ، پردرد، پرخار اور کہیں کہیں دلچسپ اور مزیدار۔ ملی جلی کیفیت ہے۔ خیالات میں وسعت اور سوچ میں پختگی بات کو آگے بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ پیچھے نظر دوڑا کر دیکھا جاتا ہے اور گذشتہ سے پیوستہ آگے دیکھ کر چلا جاتا ہے۔ اس سارے عمل کو خود احتسابی کہتے ہیں اور خود احتسابی کا عملی اسی صورت میں ممکن ہے اگر انسان خودی کے فلسفے سے آگاہ ہے نہیں تو پھر نیو ایئر نائٹ اور آخر پر ہلہ گلہ اور ہلے گلے سے فارغ ہو بندہ تھک ہٹ کر سو جاتا ہے۔ مثل مشئسونے والوں کے کٹے ہوتے ہیں اور کاٹو مال نے تو بالآخر ٹکہ ٹوکری ہونا ہوتا ہے۔ بہتر ہے خود احتسابی کے نتیجے میں آنکھیں کھل جائیں اور بندہ دیکھ بھال کر زندگی کے فیصلے کرے۔ شور شرابہ تو حیوان بھی کرتے ہیں اور انسان اور حیوان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حضرت انسان اپنے کل کے بارے میں سوچتا ہے اور اس سلسلے میں باقاعدہ منصوبہ سازی کرتا ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ بات 31 دسمبر تک پہنچ جاتی ہے اور پھر عہدنامہ۔نیا جوش جذبہ اور ذوق شوق اور بغیر قومہ فل سٹاپ آگے بڑھنے کی جستجو( جستجو جس گل کی تڑ پاتی تھی اے بلبل مجھے۔۔۔خوبی قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے) گل کے حصول کے لئے خار سے جنگ کرنا پڑتی ہے اور یہ جنگ جیت کر ہی پھولوں کی نمائش لگا کر کائنات کو خوبصورت بنایا جا سکتا ہے۔ آئیے عہد کرتے ہیں کہ سال 2024 کے غروب ہونے سے پہلے اپنے کئے پر پچھتاتے ہیں اور آئندہ کے لئے توبہ تائب ہو کر ایک نئی صبح کے طلوع ہونے کا خواب دیکھتے ہیں۔ ابھی دسمبر کے ختم ہونے میں چند دن

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.