بچوں کے حقوق کا عالمی دن اور ہماری زمہ داریاں

1

تحریر: محمد عرفان چدھڑ
آج کے دور میں جہاں سیاسی کشمکش اور انتشار کی خبریں عام ہیں، وہاں ایک مثبت پہلو اجاگر کرنا ضروری ہے۔ بچوں کے عالمی دن کے موقع پر محکمہ سوشل ویلفیئر اینڈ بیت المال اور یونیسیف کے اشتراک سے الحمرا آرٹس کونسل میں منعقدہ تقریب نے معاشرے میں بچوں کے حقوق پر ایک اہم پیغام دیا۔ اس تقریب میں بچوں کے حقوق کے تحفظ پر کام کرنے والی تنظیموں اور بچوں نے نہ صرف بھرپور شرکت کی بلکہ ایک چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا، جو اقوام متحدہ کے بچوں کے بنیادی حقوق کے اصولوں پر مبنی تھا۔
یہ چارٹر چار اہم نکات پر روشنی ڈالتا ہے:
1.⁠ ⁠زندگی کے بنیادی حقوق: صحت، خوراک، اور محفوظ رہائش کی فراہمی۔
2.⁠ ⁠تعلیم اور ترقی کے مواقع: تعلیم، کھیل، ثقافت، اور ذاتی صلاحیتوں کی نشوونما۔
3.⁠ ⁠تحفظ: ہر قسم کے استحصال، تشدد، اور زیادتی سے بچاؤ۔
4.⁠ ⁠اظہار رائے کا حق: اپنی بات کہنے اور معلومات تک رسائی حاصل کرنے کی آزادی۔
پاکستان کا آئین بھی بچوں کے ان حقوق کو تسلیم کرتا ہے، لیکن ان پر عمل درآمد میں غربت، تعلیم کی کمی، چائلڈ لیبر، اور کم عمری کی شادی جیسے عملی چیلنجز حائل ہیں۔ اس تقریب میں بچوں کے مسائل اور ان کے حقوق پر تو بات ہوئی، لیکن میرے ذہن میں ایک اور پہلو گردش کرنے لگا—وہ والدین اور بچوں کے تعلق کا پہلو۔ ہمارے معاشرے میں والدین اپنی اولاد کے روشن مستقبل کے لیے ہر ممکن قربانی دیتے ہیں۔ مزدور سے لے کر فیکٹری کے مالک تک، سب اپنی بساط سے بڑھ کر محنت کرتے ہیں، لیکن اس جدو جہد میں وہ اکثر ایک اہم چیز نظر انداز کر دیتے ہیں وہ کیا ہے وہ ہے بچوں کے ساتھ وقت گزارنا۔
ماں اور باپ دونوں ہی بچوں کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن موجودہ رویے میں عدم توازن دکھائی دیتا ہے
جیسا کہ ماں بچوں کو باپ کا خوف دلا کر ڈسپلن بنانے کی کوشش کرتی ہے، اور باپ یہ کہہ کر پیچھے ہٹ جاتا ہے کہ بچوں کی تربیت ماں کا کام ہے۔
دوسری بات بچے جب اپنے والد سے بات کرنے میں خوف محسوس کریں گے تو وہ اپنے مسائل کسی اور سے شیئر کریں گے، جو خطرناک نتائج کا سبب بن سکتا ہے۔
وقت کی ضرورت کہ بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے صرف مالی وسائل فراہم کرنا کافی نہیں۔ ضروری ہے کہ والدین بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، ان کی بات سنیں، اور ان کے مسائل کو سمجھیں۔اگر والد اپنے بچے کی بات کو اہمیت دے، تو وہ بہتر مشورہ اور رہنمائی فراہم کر سکتا ہے۔والدین کا خوف کی بجائے بچوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بننا ان کی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
بچوں کے عالمی دن کا مقصد صرف ان کے حقوق کی نشاندہی نہیں بلکہ ان کی عملی تحفظ کی کوشش بھی ہے۔ یہ ذمہ داری نہ صرف ریاست بلکہ والدین پر بھی عائد ہوتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ اپنی مصروفیات کے باوجود بچوں کے لیے وقت نکالیں، ان کے مسائل کو سنیں اور سمجھیں۔
یہی طریقہ بچوں کو ایک بہتر، محفوظ، اور خوشحال زندگی دینے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بچوں کا مستقبل روشن کرنے کے لیے ہمیں ان کے حقوق کا احترام کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے جذباتی تعلق قائم کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ یہی تعلق انہیں ایک بہتر انسان اور معاشرے کا کامیاب فرد بنا سکتا ہے۔
بچے کسی بھی معاشرے کا مستقبل ہیں۔ بین الاقوامی معاہدوں اور ملکی قوانین کے ذریعے ان کے حقوق کا تحفظ نہایت اہم ہے۔ بچوں کو ان کے حقوق فراہم کرنے کے لیے حکومت، والدین، اور معاشرے کے تمام طبقات کو مشترکہ طور پر کردار ادا کرنا چاہیے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.