پاکستان کے ذہین ترین اذہان کا ملکی ترقی میں مایوس کن کردار

5

اورنگزیب اعوان

ملک پاکستان کو آزاد ہوئے 76 سال گزر چکے ہیں. اس طویل سفر کے دوران ملک پاکستان مختلف ادوار سے گزارا ہے. ہمارے ہاں کبھی جمہوریت، کبھی آمریت تو کبھی صدارتی نظام حکومت کا تجربہ کیا گیا. سبھی نظام حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے معاملہ میں ناکام ثابت ہوئے. یہ نظام حکومت ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے رائج کیے گئے. کسی بھی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے دوسرا نظام حکومت رائج کر دیا جاتا تھا. عوام اس نظام کو بہتر سمجھ کر تسلیم کر لیتی تھی. مگر اسے سوائے مایوسی کے کچھ نہ ملتا. پاکستان کے سیاست دان بلاشبہ قابلیت کے لحاظ عام لوگوں سے ہزار درجے بہتر ہوتے ہیں. یہ ان کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے. کہ یہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کو قائل کرتے ہیں. کہ وہ انہیں اور ان کی سیاسی جماعت کو ووٹ ڈالے. تاکہ وہ الیکشن میں منتخب ہوکر ملک و قوم کی خدمت کا فریضہ ادا کر سکے. مگر منتخب ہونے کے بعد نجانے وہ کون سی وجوہات ہوتیں ہیں. کہ وہ اپنے وعدوں پر عمل درآمد نہیں کر پاتے. اور عوام کو اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں. اگر پاکستان کے سیاست دان اپنی خداداد صلاحیتوں کو ملک و قوم کی بہتری کے لیے صرف کرے. تو یہ ملک جنت نظیر کا منظر پیش کرے. ہمارے سیاست دان صلاحیتوں اور ذہانت میں دنیا میں کسی سے کم نہیں. مگر یہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو ذاتی مفادات کی نظر کر دیتے ہیں. جس سے ان کی تجوریاں تو بھرتی جاتی ہیں. مگرعام عوام غربت کی چکی میں پس جاتی ہے. اسی طرح سے ملک پاکستان میں عوام کی خدمت کے لیے وفاقی سرکاری اداروں میں اہم ترین عہدوں پر ذہین ترین افسران کی تعیناتی کے لیے ہر سال سی ایس ایس کے امتحان کا انعقاد کیا جاتا ہے. یہ امتحان دو مراحل پر مشتمل ہوتا ہے. تحریری اور زبانی انٹرویو. ان دونوں مراحل پر ذہین ترین لوگوں کی خداداد تعلیمی اور ذہنی صلاحیتوں کو پرکھا جاتا ہے. جو لوگ تعلیمی و ذہنی صلاحیتوں میں سب سے بہتر ہوتے ہیں. انہیں مختلف سرکاری اداروں میں عوام کی خدمت کے فرائض پر مامور کیا جاتا ہے. بلاشبہ یہ لوگ تعلیمی اور ذہنی صلاحیتوں کے لحاظ سے عام لوگوں سے کروڑوں درجے بہتر ہوتے ہیں. یہ لوگ اپنی انہیں خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر سرکاری اداروں کے سربراہان کے عہدہ پر براجمان ہو جاتے ہیں. ان کے قلم میں اتنی طاقت ہوتی ہے. کہ یہ کسی بھی معاملہ میں کوئی بھی فیصلہ سازی کرسکتے ہیں. انہیں عرف عام میں بیورو کریسی کا لقب دیا جاتا ہے. بیورو کریسی افسر شاہی بھی کہلاتی ہے. اس میں گریٹ 16 سے لیکر گریٹ 22 تک کے افسران شامل ہیں. صوبوں میں بھی اسی طرح مختلف تحریری و زبانی انٹرویو لیکر مختلف سرکاری اداروں کے سربراہان تعنیات کیے جاتے ہیں.جو قابلیت کے لحاظ سے کسی سے کم نہیں ہوتے. تعلیم، صحت، خوراک، صنعت، تجارت، پولیس غرض ہر سرکاری ادارے کا سرابرہ قابل ترین انسان ہوتا ہے. مگر ملازمت میں آتے ہی اس کی صلاحیتیں مانند پڑنا شروع ہو جاتیں ہیں. وہ اپنے ادارے کی بہتری اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کرتا. کیونکہ وہ اس عہدہ پر بیٹھ کر صرف اور صرف ذاتی مفادات کو ترجیح دیتا ہے. اس کے اثاثہ جات بڑھتے جاتے ہیں. اورعوام غریب سے غریب تر ہوتی جاتی ہے. اگر ذرا غور کیا جائے. تو جو سرکاری آفیسر سرکاری سکول سے پڑھا ہوتا ہے. اور عام متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے. اس کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں. چند ہی سالوں میں اس کے پاس آلہ دین کا کون سا چراغ آ جاتا ہے. کہ اس کے ذاتی اثاثے اربوں تک پہنچ جاتے ہیں. شاید ہمارے ملک میں احتساب کا نظام صرف کتابوں تک محدود ہے. یا اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے. حقیقت میں اس کا وجود نہیں. پاکستان کی 76 سالہ تاریخ پر نظر ڈالے تو پتہ چلتا ہے. کہ کسی بھی سرکاری ادارے کے سربراہ اور کسی بھی دور حکومت کے سرابرہ سمیت اس کے وزراء نے آج تک کوئی قابل ذکر ادارہ قائم نہیں کیا. جس کی مثال دی جا سکے. ملک میں کوئی ایک سرکاری ہسپتال، سکول، کالج، یونیورسٹی و دیگر انسٹی ٹیوٹ نہیں. جس کا موازانہ دنیا کے بہترین اداروں سے کیا جا سکے. یہ لوگ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کتابیں لکھتے ہیں. مختلف سمینار میں لیکچر دیتے ہیں. اور عوام بالخصوص نوجوان طالب علموں کو بتاتے ہیں کہ ملک پاکستان کی پسماندگی کی وجہ کیا ہے. کوئی ان سے پوچھے. کہ دوران ملازمت انہوں نے ملک و قوم کی بہتری کے لیے کیا خدمات سرانجام دی ہیں. جبکہ ان کے پاس اختیارات بھی تھے. انہوں نے اس وقت بیرون ملک جائیدادیں بنائیں. آج ان کے بچے وہاں عالی شان بنگلوں میں رہائش پذیر ہیں . اور یہ یہاں عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے لیکچر دیتے پھرتے ہیں. یہ سلسلہ پیچھلے 76 سال سے رواں دواں ہے. ریٹائرمنٹ کے فوری بعد یہ لوگ بیرون ملک چلے جاتے ہیں. اور چند سال بعد واپس آکر مفکر، سکالر بن کر عوام کو گمراہ کرتے ہیں. پاکستان کی ترقی کے سفر میں ان ذہین ترین اذہان کا کردار انتہائی مایوس کن رہا ہے. جس دن ان ذہین ترین اذہان نے حقیقت میں اپنی خداداد صلاحیتوں کو ملک پاکستان کی بہتری کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا. اسی دن ملک پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی.

وہ جن کو نیند نہ آئے انہی کو ہے معلوم
کہ صبح آنے میں کتنے زمانے لگتے ہیں.

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.