کفایت شعاری کا عالمی دن
احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایاز خان
اکتیس اکتوبر کو دنیا بھر میں کفایت شعاری کا عالمی دن (ورلڈ سیونگز ڈے ) منایا جاتا ہے۔اس دن کے منانے کا بنیادی مقصد آمدنی سے زیادہ اخراجات پر قابو پانا اور انفرادی اور اجتماعی بچت کو فروغ دینا ہوتا ہے ۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس دن کو منانے کا آغازبہت پہلے ۱۹۲۴ءمیں ورلڈ سوسائٹی آف سیونگ بینکس کی جانب سے ہوا تھا ۔تاکہ لوگوں میں کفایت شعاری اور پیسے جمع کرنے کا شعور اجاگر کیا جا سکے ۔اس دوران اٹلی کے شہر میلان میں پہلی بین الاقوامی کانگریس منعقد کی گئی اور عالمی دن منانے کا آغاز بھی اسی سلسلے کی اہم کڑی سجھا جاتا ہے ۔کفایت شعاری کے اس دن پر بینکس ،مالیاتی ادارے اورسرکاری وغیرسرکاری ادارے لوگوں کو قومی بچت کی افادیت اور اس سےذاتی اور قومی معیشت پر اثرات سے آگاہی فراہم کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنی بچت جمع کرنے کے لیے اکاونٹ کھولنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔انہیں بتایا جاتا ہے کہ ہر فرد کو بچت کے لیے اپنے بجٹ کی منصوبہ سازی کرنی چاہیے ۔اور اس منصوبہ بندی کی ترغیب دینے کے لیے مختلف ورکشاپس ،سیمنار اور کانفرنسز منعقد کی جاتی ہیں اور ساتھ ساتھ بینکس کی جانب سے اپنی اپنی خصوصی بچت اسکیمز اور ان پر دئیے جانے والے منافع کو متعارف کرایا جاسکے ۔لوگوں کو یہ یقین دھانی بھی کرائی جاتی ہے کہ ان کی بچت نہ صرف ان بینکوں محفوظ ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ منافع ملنے سے بڑھتی ہے اور بوقت ضرورت فوری ادائیگی کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے ۔کہتے ہیں کہ جس آدمی کا خرچ آمدن سے ایک روپیہ زیادہ ہو گیا تو سمجھو پریشانی شروع ہو گئی اور اگر آپ اپنی آمدن نہیں بڑھا سکتے تو خرچ کم کردیں تو یقینا” آسانی ہو جاۓ گی اور زندگی میں سکون پیدا ہوجاۓ گا ۔گویا زیادہ آمدنی اور کم اخراجات کا فرق آپکی بچت ہوتی ہے ۔یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب ہم اپنے اخراجات میں میانہ روی اختیار کریں اور آمدنی کے وسائل بڑھانے کی کوشش کریں ۔اخراجات میں میانہ روی کے لیے فضول خرچی اور بےجا خواہشات کی تکمیل سے گریز کرنا پڑتا ہے اور بلا سوچے سمجھے خرچ کرنے سے آپکی آمدنی ہی نہیں بلکہ جمع پونجی بھی اسراف کی نذ ر ہو سکتی ہے ۔اخراجات میں اضافہ آپ کو قرض کی جانب دھکیل دیتا ہے ۔جبکہ قرض ایک ایسی لعنت ہے جو انسان کو ڈئپریشن اور پریشانی کا شکار کر دیتی ہے اور دوسروں کا محتاج بنا دیتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بھی ہمیں کفایت شعاری کادرس دیا ہے اور فضول خرچی سے منع کرتے ہوۓ اخراجات میں میانہ روی اختیار کرنی کی ہدایت کی ہے بلکہ فضول خرچ کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا ہے اور خرچ میں میانہ روی کو آدھی معیشت کہا گیا ہے ۔شیخ سعدیؒ کا قول ہے کہ “جس نے کفایت شعاری اپنائی اس نے حکمت و دانائی سے کام لیا ” جب کہ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ “کفایت شعاری حقیقت میں اپنے نفس پر قابو پانا ہوتا ہے “جبکہ حدیث نبوی ہے کہ جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ پاک اسے مال دار کردیتے ہیں اور جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ پاک اسے محتاج کر دیتے ہیں ” اسلام بچت کا حکم دیتا ہے مگر اس بچت پر سود یا منافع لینے سے منع فرماتا ہے ۔انفرادی بچت کے ساتھ ساتھ قومی بچت کا شعور اجاگر کرنا اس عالمی دن کے موقعہ پر بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔کسی بھی ملک کی اجتماعی بچت اس ملک کا بنیادی سرمایہ ہوتی ہیں ۔ہماری انفرادی بچت اکھٹے ہو کر اجتماعی اور قومی بچت بن جاتی ہیں جو ملک اور قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ہماری انفرادی بچت ہی قومی بچت کا تصور پیش کرتی ہے ۔بچت کی یہ عادت اقوام کے لیے سرمایہ کاری کی شرح میں اضافے ،مضبوط معیشت اور بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرنے کا باعث بنتی ہے ۔اسی سے اپنے شہریوں کو کفایت شعاری اور بچت کی ترغیب دینے والا کوئی بھی ملک ایک مستحکم معیشت کی بنیاد رکھ سکتا ہے ۔ ہمارے ملک میں قومی بچت کا خصوصی ادارہ بڑی کامیابی سے کام کرہا ہے ۔ملک کے مالیاتی ادارے بھی قومی بچت کے اضافے میں مثبت کردار ادا کررہے ہیں۔پچھلی چند دھائیوں میں بینکنگ انڈسڑی نے تاریخی ترقی کی ہے اور ملک کے دور دراز علاقوں تک برانچوں کا ایک جال بچھا دیا ہے ۔دوسری جانب اسلامی بینک کاری کے اجرا ء سے ایک بہت بڑا اسلامی سوچ رکھنے والا طبقہ اس جانب متوجہ ہو چکا ہے تاہم اس سلسلے میں ابھی بھی بہت کام ہونا باقی ہے ۔عالمی کفایت شعاری کے دن کی نسبت سے بین الااقوامی طور پر بچت اور کفایت شعاری کی سوچ کو اجاگر کرنے کا مزید موقع ملتا ہے ۔آج کے جدید دور میں الیکٹرنک اور سوشل میڈیا اس سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔
میں نے ستر کی دھائی میں جب بنک ملازمت کا آغاز کیا تولوگوں کو بنک کی جانب راغب کرنا بہت مشکل کام ہوا کرتا تھا ۔لوگ اپنی جمع پونجی گھروں میں رکھتے اور چوروں کے ڈر سے زمین میں دفن کر دیتے تھے یا پھر شہر کے آڑھتی اور سنار ان کی رقوم امانت کے طور پر اپنے پاس رکھتے تھے اور بوقت ضرورت انہیں لوٹا دیتے تھے ۔ چولستان کے دور دراز علاقوں میں تو بہت سی رقوم اس وقت ضائع ہو گیں جب بھٹو دور میں ملک میں کرنسی کی تبدیلی عمل میں آئی اور لوگوں تک بروقت اطلاع ہی نہ پہنچ سکی ۔اس وقت بینکوں کی شاخیں بھی بہت زیادہ نہ ہوتی تھیں اور تبدیلی کا وقت بھی کم تھا ۔دوسرے اس دور میں لوگ بینکوں پر اعتبار بھی نہیں کرتےتھے ۔وہ سمجھتے تھے کہ ان کی رقم لیکر یہ بھاگ جائیں گے اور ان کی رقم ڈوب جاۓ گی ۔بطور بنک منیجر میری پہلی تعیناتی ایک دیہاتی برانچ میں ہوئی جو کسی چیلنج سے کم نہ تھی ۔میں نے بچت اور بچت اسکیموں کو متعارف کرانے کے لیے وہاں کے اسکولز کا انتخاب کیا اور بچوں کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو بھی بچت اور اس کے فوائد سے آگاہ کیا اور پھر وہاں کے ہائی اسکول میں اکتیس اکتوبر کو عالمی کفایت شعاری اور بچت کا دن منانے کے لیے وہاں کے بچوں کے درمیان بچت معلومات کے بارے میں ایک کوئز مقابلے کا اہتمام کیا ۔جس میں بچت اور اس افادیت کے ساتھ ساتھ بنک اکاونٹ اور دیگر بچت کی طویل المعیاد اسکیموں کو بھی متعارف کرایا گیا ۔کہتے ہیں کہ بچوں سے زیادہ تیزترین پیغام رسانی ممکن نہیں ہوتی اس لیے یہ پیغام دور دور تک پہنچ گیا ۔دیہات کے اس اسکول میں اس روز ایک میلے کا سماں دکھائی دے رہاتھا ۔مجھے فخر ہے کہ اس کی بدولت میری برانچ ایک سال میں ہی ڈبل ہو گئی اور لوگ جوق درجوق بینک کا رخ کرنے لگے ۔میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ بچت کے لیے ذہن سازی کی ابتدا اور مالیاتی خوا ندگی کا آغاز چھوٹی عمر ہی سے ہونا چاہیے ۔انفرادی اور اجتماعی بچت اور کفایت شعاری عام کرنے کے لیے اسکول ،کالجز اور جامعات سے لیکر کام کرنے کے مقامات تک بچت اور میانہ روی کی اہمیت پر زور دینے کی ضرورت ہے ۔بچت کے معاملے میں خواتین کا کردار بہت اہم ہوتا ہے بچت کی عادت ان کے مزاج اور فطرت میں شامل ہوتی ہے ۔لیکن بچت اور اس کی حفاظت کے بارے مین اکثر بےخبر ہوتی ہیں ۔آج بھی ہمارے ملک میں خواتین بینک یا مالیاتی اداروں تک آنے میں شرم اور دشواری محسوس کرتی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق کل آبادی کا پچپن فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہےاور خواتین کا اسی فیصد سے زائد طبقہ ملک کے بینکوں اور مالیاتی اداروں سے مستفید نہیں ہو پا رہا ہے ۔جبکہ پاکستان کی مجموعی کل آبادی کا صرف پچا س سے ساٹھ فیصد ہی اپنی بچت بینکوں اور مالیاتی اداروں میں رکھ پاتا ہے ۔عالمی یوم کفایت شعاری اس بات کا متقاضی ہے کہ مجموعی آبادی کے کم از کم ستر سے اسی فیصد طبقے کی رسائی ان بینکوں اور مالیاتی اداروں تک ہو جاۓ ۔اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہم قومی بچت کے تصور اور پیغام کو عام آدمی تک پہنچانے کا عزم کریں اورانہیں یہ باور کرائیں کہ قومی بچت اور کفایت شعاری ملکی معیشت میں ریڑ کی ہڈی کی طرح اہم ہوتی ہے ۔موجودہ معاشی حالات میں ملک اور قوم کی ترقی کے لیے کفایت شعاری اور بچت کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ نظر آتی ہے ۔آئیں اس عالمی دن کی نسبت سے عہد کریں کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر فضول خرچی سے اجتناب کریں اور کفایت شعاری کو فروغ دیں گے اور اپنی بچت کو قومی دھارے میں لاکر ملکی معیشت کے استحکام کا حصہ بنیں گے ۔