جلوہ ہائے جمال

2

روبرو۔۔۔۔محمد نوید مرز

جلوہ ہائے جمال معروف ادیب اور شاعر جناب تفاخر محمود گوندل کی نئی کتاب کا نام ہے،جو ان کے سفر نامہء حجاز اور

نعتیہ کلام پر مشتمل ہے۔یوں یہ کتاب بیک وقت نثری و شعری تخلیقات کا مجموعہ ہے۔تاہم میری نظر میں تفاخر صاحب کی نثر ان کی شاعری پر حاوی ہے۔لفظوں کے خوب صورت چناؤ اور عمدہ انداز بیان پر مشتمل یہ سفر نامہ پڑھنے والے کو بطحا کی سر زمین کی طرف لے جاتا ہےاور قاری تصوراتی طور پر اس مقدس سر زمین پر پہنج جاتا ہے ،جہاں نبیوں کے سردار ، تاجدار انبیاء نے اپنے قدم رکھے تھے۔
تفاخر محمود گوندل صاحب سے میرا تعارف معروف شاعر ،ناشر اور دیرینہ دوست جناب حسن عباسی کے توسط سے ہوا۔میں نے کچھ عرصہ قبل ان کی کتاب ،اقبال اور اصحاب رسول اللہ کی تقریب پذیرائی میں شرکت کی۔۔۔۔میں خود بھی اقبال کے عشق میں مبتلا ہوں اور اقبالیات پر کئی کتب لکھ چکا ہوں۔حال ہی میں فاضل مصنف کی نئی کتاب ،جلوہ ہائے جمال منظر عام پر آئی ہے،جوبطحا کی دل پذیر اور خوبصورت وادیوں کا سفر نامہ ہے۔غور کریں تو کتاب کے دو انتساب ہیں۔پہلا انتساب نذرانہء وجدان کے عنوان سے سرکار دو عالم کے پیکر نور ،جمال جہاں آراء کی نذر کیا گیا ہے اور بقول مصنف ،جس کی تابش سے رخسار شمس و قمر نجوم و کہکشاں عالم امکان میں روشنی بکھیر رہے ہیں۔ایک دوسرا انتساب والدہ محترمہ ،معظمہ،مکرمہ کے نام ہے۔جن کی سحر خیزیوں اور پر خلوص دعاؤں نے مجھے مصائب و آلام کی جگر فگار آندھیوں سے محفوظ رکھا ہے،،
اپنی حاضری کے حوالے سے تفاخر لکھتے ہیں،،حاضری کے وقت ہیبت خداوندی اور جمال مصطفیٰ کے سامنے بڑے بڑے ارسطوئے زماں اپنی عقل و خرد کی دھجیاں فضائے بسیط میں اڑا بیٹھتے ہیں۔جنید و یزید اپنے دامن تفخر کی پونجیاں لٹا بیٹھتے ہیں۔آمنہ کے در یتیم کے جمال جہاں کے آراء سامنے حسینان زمن گردنیں کٹوا بیٹھتے ہیں وھاں مجھ ایسا رقیق القلبی کا شکار اور کائنات رنگ و بو میں سب سے زیادہ خطا کار انسان پورے حواس خمسہ کے ساتھ ان نظارہ سوز تجلیوں کا مشاھدہ کرنے کی تاب رکھ سکتا ہے؟ اس کو صرف عطائے للہی کے علاؤہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا ۔اگر خلاق دو عالم کا فضل و کرم اور حضور سرور کائنات کی کرم گستری کی انتہاء اس عاجز کے شامل حال نہ ہوتی تو یہ سب سے ارفع آرزو پایہء تکمیل تک نہ پہنچ سکتی،،
جلوہ ہائے جمال میں ہمیں اعلیٰ نثر نگاری کے ساتھ آخر میں چند خوبصورت نعتیں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں،جو عقیدت کی خوشبو سے لبریز ہیں۔بقول ڈاکٹر عبد القدیر خان،،ان کے ہر لفظ ہر ہر جملہ سے ان کی اللہ تعالیٰ سے اور اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔جس تفصیل ،محبت اور خلوص سے آپ نے اپنے سفر نامہ کو تحریر کیا ہے وہ پڑھنے والے کو بھی مدہوش و بے خود کر دیتا ہے،،
کتاب پر دیگر کئی اہم شخصیات کی رائے درج ہے۔پچھلے دنوں جلوہ ہائے جمال کی تقریب پذیرائی قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن میں ہوئی،جس کی صدارت معروف ادیب جناب عبد الرشید تبسم نے کی۔مہمانان خصوصی میں جناب قاسم علی شاہ اور دیگر کئی اہم علمی و ادبی شخصیات شامل تھیں۔مقررین کی خاصی تعداد تقریب میں شریک رہی ،جنھوں نے جناب تفاخر محمود گوندل کو اس اہم کاوش پر بھر پور طریقے سے خراج تحسین پیش کیا۔یہ ایک بہترین تقریب تھی ،جس میں شہر کی اہم شخصیات نے شرکت کی۔قاسم علی شاہ میں جس انداز میں علمی و ادبی تقریبات کا انعقاد ہو رہا ہے اس کے لئے ادارہ مبارکباد کا مستحق ہے۔آخر میں گوندل صاحب کے چند شعر نذر قارئین ہیں۔۔۔۔

لبیک کی ہر وقت صدا گونج رہی ہے
روتے ہیں تڑپتے ہیں مچلتے ہیں خطا کار

روضہء پاک مجھے خواب میں بھی آئے نظر
پاس روضے کے یہی سوچ کے رو لیتا ہوں

سمٹے ہوئے ہیں آنکھ میں انوار مصطفے’
نظروں کے سامنے ہے جو دربار مصطفے’

سمٹ رہا ہے مدینے کا نور آنکھوں میں
بسے ہوئے ہیں تفاخر حضور آنکھوں میں

قسم خدا کی ہیں میری حیات کا حاصل
نبی کے شہر کے قرب و جوار کے لمحے

کیا خوب اٹھیں مسجد نبوی میں گھٹائیں
کچھ ان کے مقابل نہیں جنت کی ہوائیں

ھوتا ہوں جدا آج نبی پاک کے در سے
اس شام چلا جاؤں گا سرکار کے گھر سے

جونہی لعاب دہن تھا حضور نے ڈالا
تو پل میں ٹھیک ہوئی چشم فاتح خیبر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.