ماحولیاتی بحران اور میڈیا کی خاموشی
نام: اقراء لالی
جامعہ پنجاب لاہور
iqralali665@gmail.com
پاکستان میں جب کبھی سیاسی کشیدگی یا مشہور شخصیات کے اسکینڈلز منظر عام پر آتے ہیں، تو تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات ان کہانیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی کہیں پس منظر میں، ایک اور بحران جنم لے رہا ہے، جو کسی اسکینڈل یا سیاسی بحران سے بہت ہی زیادہ خطرناک ہے , یہ خطرہ اور کچھ نہیں بلکہ سالہا سال بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تباہی ہے ۔ اس بحران کی آواز بہت دھیمی ہے، اتنی کہ شاید اسے سنا ہی نہ جائے۔ لیکن جب ماحولیاتی تبدیلی اپنی پوری شدت سے حملہ کرتی ہے، تب اسے نظر انداز کرنا مشکل ہو جاتا ہے، جیسے 2022 کے سیلاب کے دوران ہوا تھا۔
ہم نے ان سیلابوں کے دوران پورے ملک میں ہنگامی حالت دیکھی، جب لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو رہے تھے، زمینیں زیر آب تھیں اور انفراسٹرکچر تباہ ہو رہا تھا۔ اس وقت ہر نیوز چینل اور اخبار اس بحران پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا۔ لیکن جیسے ہی پانی کا بہاؤ کم ہوا، میڈیا کی توجہ بھی کم ہو گئی۔ اسی طرح جیسا کہ سب کو معلوم کہ اب پاکستان میں سموگ ہر سال پچھلے سال سے زیادہ بڑھتی جا رہی ہے لیکن اس کے بارے میں بھی کوریج صرف اسی دورانیہ میں دیکھنے کو ملتی ہے جب سموگ حد سے بھر جاتی ہے لیکن سالہا سال جب ہم سموگ سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدمات کر سکتے ہیں تب میڈیا اس بارے میں کوئی کوریج نہیں دیتا.شاید یہی پاکستانی میڈیا کی سب سے بڑی خامی ہے ـ وہ ماحولیاتی مسائل کو وقتی واقعات سمجھ کر پیش کرتا ہے، نہ کہ ایک جاری و ثانی مسئلہ جو ملک کے مستقبل پر سنگین اثرات مرتب کر رہا ہے۔
پاکستان جیسے ملک کے لیے، جو دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ نمایاں ہیں، یہ رویہ نہایت تشویشناک ہے۔ گرمی کی شدت، سیلاب، خشک سالی، اور پانی کی کمی جیسے مسائل کوئی عارضی بحران نہیں ہیں , یہ ہمارے سامنے بڑھتے ہوئے ماحولیاتی چیلنجز کا مستقل حصہ ہیں۔ اس کے باوجود، پاکستانی میڈیا ان مسائل کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام رہا ہے، اور عوامی سطح پر ان مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کا موقع ضائع ہو رہا ہے۔
لیکن معاملہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ مسئلہ صرف یہ نہیں کہ میڈیا ماحولیاتی خبروں کو کم اہمیت دیتا ہے، بلکہ یہ بھی ہے کہ جب ماحولیات پر بات ہوتی بھی ہے تو وہ اکثر سادہ اور سطحی رپورٹنگ تک محدود رہتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی پیچیدگیاں اور اس کے ملک کے مختلف خطوں پر مختلف اثرات کو گہرائی سے سمجھنے اور بیان کرنے کی ضرورت ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیاں پورے پاکستان میں مختلف انداز میں اثر ڈال رہی ہیں۔ شمالی علاقہ جات کے گلیشیئر پگھل رہے ہیں، جس سے ملک کے پانی کے ذخائر کو خطرہ لاحق ہے۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں خشک سالی اور گرمی کی لہریں زرعی پیداوار کو کم کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں پانی کی شدید قلت نے عوام کی زندگیوں کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ لیکن ان تمام چیلنجز کی جامع رپورٹنگ کہیں نہیں ملتی۔ اس پر مزید غور کی ضرورت ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، اور حکومت کی پالیسیوں کا جائزہ کیسے لیا جا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا ایک نیا پلیٹ فارم بن کر ابھرا ہے جہاں ماحولیاتی مسائل پر گفتگو ہو رہی ہے۔ نوجوان ماحولیاتی کارکن اور تنظیمیں اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو استعمال کر کے عوامی آگاہی بڑھا رہے ہیں۔ WWF پاکستان جیسے ادارے ماحولیات کے مسائل کو اجاگر کرنے میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کی کوششوں نے بہت سے لوگوں کو ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں بیدار کیا ہے، خاص طور پر شہری علاقوں میں درختوں کی کٹائی اور پلاسٹک کے استعمال کے خلاف چلنے والی کیمپینز نےعوام شعور پیدا کیا ہے
تاہم، یہ بھی سچ ہے کہ سوشل میڈیا پر ماحولیاتی مسائل پر ہونے والی گفتگو ابھی ایک محدود طبقے تک ہی ہے۔ پائیدار رویوں کو فروغ دینے کے لیے پاکستانی میڈیا کو مزید فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے لیے میڈیا ہاؤسز کو اپنی مالی مفادات سے بالاتر ہو کر ان صنعتوں کا احتساب کرنا ہوگا جو ماحولیاتی آلودگی اور وسائل کے غلط استعمال میں ملوث ہیں۔ لیکن یہ کام آسان نہیں ہوگا، کیونکہ بہت سے میڈیا ہاؤسز کی ملکیت خود ان بڑی کارپوریشنز کے پاس ہے جو تعمیرات، ٹیکسٹائل، اور دیگر ماحولیات پر منفی اثر ڈالنے والے شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔
حکومت کی جانب سے ماحول پسند یعنی “دس ارب درخت سونامی” جیسے منصوبوں نے ماحولیاتی کوریج کو کچھ حد تک آگے بڑھایا ہے۔ لیکن ان منصوبوں کی کامیابی اور ان کے حقیقی اثرات پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ درختوں کی کتنی تعداد باقی رہتی ہے؟ ان منصوبوں کا مقامی ماحولیاتی نظام پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟ایسے منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے عوام کا کیا رول ہو سکتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب میڈیا کو تلاش کرنا ہوگا، تاکہ عوام کو حقیقت کا علم ہو اور وہ خود ان منصوبوں کے بارے میں بہتر رائے قائم کر سکیں۔
پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک فعال کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر COP27 جیسے فورمز پر۔ لیکن یہ سرخیاں اکثر مقامی میڈیا میں سیاست اور دیگر خبروں کے نیچے دب جاتی ہیں۔ میڈیا کو ان عالمی ترقیات کو مقامی سیاق و سباق میں پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو یہ سمجھنے میں مدد ملے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے عالمی مذاکرات کا ان کی زندگیوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں ماحولیاتی صحافت کو ابھارنے کے لیے میڈیا کو اپنی روایتی کوریج سے ہٹ کر نئے انداز اپنانے ہوں گے۔ صحافیوں کو ماحولیاتی پالیسی، موسمیاتی سائنس، اور پائیدار ترقی کے موضوعات پر خصوصی تربیت دی جانی چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ میڈیا صرف تباہ کن واقعات پر رپورٹنگ نہ کرے، بلکہ ان کی وجوہات اور ممکنہ حل پر