کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور

16

دشتِ امکاں
بشیر احمد حبیب

(دوسرا حصہ)

کائنات کے حوالے سے اقبال نے بہت بعد میں کہا ۔

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں

غالب نے بہت پہلے کہا اور بہت خوب کہا۔۔

آرایش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئنہ دائم نقاب میں
غالب نظریہ وحدت الوجود کے ماننے والے تھے ۔ گو سائنس کی کوانٹم میکینکس کی تشریحات بھی آ ج اسی نظریے کے ساتھ ہم آہنگ نظر آتی ہیں جیسے ان کا مصرع
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
یا یہ مصرع
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
مگر غالب کی intlect یہاں بھی حیران کن سوال اٹھاتی نظر آ تی ہے ۔
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

سلیم احمد نے یہ بھی کہا غالب جیسی Witt کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی ۔ بہت غیر معمولی ذہین انسان ہی Witty ہوتے ہیں ۔ جب تک لوگ بات کو سمجھتے ہیں بس اتنے وقت میں وہ جواباً شگفتہ سخنی کر چکے ہوتے ہیں ۔۔
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے ایسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
بندگی میں بھی وہ آزاد و خود بیں ہیں کے ہم
الٹے پھر آ ئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آ دمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی

شاعری میں تلمیح کی مثالیں بہت ہیں مگر یہاں غالب کا امتیاز دیکھئے ۔ صرف دو مثالیں پیش ہیں ۔ پہلے شعر میں حضرت یوسف کی قید اور حضرت یعقوب کی آنکھوں کی بے نوری کے لیے روزنِ دیوارِ زنداں کا جو ترکیب واستعارہ اور جو نسبت قائم کی ہے وہ غالب ہی کی قادر الکلامی کا حصہ ہے

قید میں یعقوبؑ نے لی ، گو نہ یوسف ؑ کی خبر
لیکن آنکھیں، روزن دیوار زنداں ہوگئیں

اور دوسرے شعر میں ماہِ کنعاں کے استعارے سے اور محو ماہِ کنعاں کی ترکیب سے جو مضمون باندھا اس کی تو کوئی مثال نہیں۔

سب رقیبوں سے ہوں ناخوش ہر زنان مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کنعاں ہوگئیں

میں سلیم احمد کی بات پر واپس آ تا ہوں ہر عہد کو غالب کون ؟ کا جواب دینا پڑے گا۔ آج کا عہد سوشل میڈیا کا عہد ہے اور آج بڑے کام کی ایک dimension اس کی viewership بھی ہے ۔ غالب نے یہاں بھی ریکارڈ بنا رکھے ہیں عوام و خواص میں آج بھی اتنے مقبول ہیں کہ ہر اردو بولنے اور سمجھنے والا غالب کی محبت کا اسیر ہے اور غالب کے عشق میں مبتلا ہے۔
اسی بات کو ایک اور نسبت سے بھی دیکھیئے ، میر کے چھ دیوان ، اقبال کے اردو فارسی کے شاعری کے نو مجموعے اور غالب کا ایک دیوان وہ بھی لگ بھگ دو سو غزلوں پر مشتمل ۔
اور غالب پھر بھی غالب۔ سبحان اللہ ۔

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.