کرپشن یا بد عنوانی تمام بیماریوں کی ماں
فاروق انجم بٹہ
کرپشن یا بد عنوانی کینسر کی مانند خطرناک اور سماج کو سماجی موت سے ہمکنار کرنے والا بھیانک مرض ہے۔ جس معاشرے کو لگ جائے اس معاشرے کی بربادی یقینی سمجھیں۔ بدعنوانی معاشرے میں ایک اچھوت مرض کی طرح پھیلتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔ جس طرح آکاس کی زرد بیل درختوں کو جکڑ کر ان کی زندگی چوس لیتی ہے اسی طرح اگر ایک بار کرپشن کسی صحت مند و توانا معاشرے پر آ گرے تو ایک ادارے سے دوسرے ادارے کو جکڑتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ ہر چیز زرد ہو جاتی ہے اور آباد اور کامیاب اداروں میں کچھ عرصے بعد الو بولنا شروع ہو جاتے ہیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے زندگی کے حقیقی عنوان سے بھٹکنے والے بدعنوانی کا شکار ہوتے ہیں۔
کرپشن کا یہ راستہ کسی ایک نقطے پر مرکوز نہیں رہتا وسعتِ کائنات کی طرح یہ بھی دائرہ در دائرہ اپنا جال بچھاتا ہے۔ بدعنوانی ایک جال ہے جس میں لالچ، طمع، حرص، جھوٹ، مکاری، فریب اور خود نمائی کے خوش نما نگینے جڑے ہیں۔ کم فہمی اور خود فریبی کے شکار لوگ ان جھوٹے رنگوں کی چمک سے اپنی حقیقت فراموش کر جاتے ہیں ان کی انکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ انہیں اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظر نہیں اتا وہ اپنی بے جا خواہشات کی تکمیل کے لیے ناجائز ذرائع اختیار کرتا ہے۔ اپنے ماحول اور معاشرے کا حق مارتا ہے۔ وہ خود کو دوسروں سے بالاتر رتبے کا خواہاں ہو جاتا ہے۔ اپنے نفس کی تسکین کے لیے وہ بد عنوانی کا راستہ اختیار کرتا ہے اپنی حیثیت سے بالاتر ہو کر لوٹ مار، قتل و غارت، ڈاکا زنی، چوری، رشوت اور اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال سے وہ چند روزہ زندگی کو الجھنوں اور پریشانیوں میں مبتلا کر لیتا ہے۔ بدعنوان عناصر پاکستان کی تعلیم صحت اور بنیادی ضرورتوں کی تکمیل میں حائل ہیں۔
ایک سرسری جائزہ لیں تو بطور مسلمان ہم نے عبادات کی ظاہری شکل کو ہی مسلمانی سمجھ لیا ہے جس میں عبادات بھی تواتر سے کررہے ہیں، حج و عمرہ کرنے والوں کی تعداد کسی بھی دوسرے ملک سے کہیں زیادہ ہے،مساجد نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں لیکن دوسری طرف نہ کم تولنے والوں کی کمی ہے، نہ لین دین میں ہم اچھی شہرت کے حامل ہیں، نہ ملاوٹ سے پاک اشیاء کہیں ڈھونڈھے سے ملتی ہیں، نہ باہمی احترام کا رویہ پروان چڑھتا دکھائی دیتا ہے اور نہ دوسروں کے حقوق کا خیال ذہن میں آتا ہے یعنی ہم مجموعی طور پر معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کی دلدل میں دھنسے دکھائی دیتے ہیں۔اِس کی سب سے بڑی وجہ دراصل وہ ہوس پرستی ہے جس نے دوسروں کے حق کو غصب کرنے کی برائی کو برائی ہی نہیں رہنے دیا اور حلال و حرام کا تصور ہمارے ذہنوں سے مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ کسی بھی برائی کا نقطہ عروج یہ ہو سکتا ہے کہ ہم اُس کے اِس قدر عادی ہو جائیں کہ وہ برائی ہماری نظر میں برائی ہی نہ رہے۔حیرت ہے کہ ہم اُس دین کے ماننے والے ہیں جو ایک لقمہ حرام کے حلق سے نیچے اتر جانے کی صورت میں 40 دن تک دعاؤں کی قبولیت کو روک دینے کی بات کرتا ہے۔دولت کی ہوس صاحبان اقتدار اور صاحبان اختیار سے ہوتی ہوئی معاشرے میں عام ہوتی ہے۔ پُرتعیش زندگی کی دوڑ اور ہوس زر ہی اصل میں کرپشن کا دروازہ کھولتے ہیں اور ہم دوسروں کو دیکھ کر اپنی زندگی کے مدار کا تعین کرنے لگتے ہیں۔ بڑے بڑے پراجیکٹ کی پلاننگ کر کے اُس طرف کی زمینیں کوڑیوں کے دام خریدنا کرپشن ہی نہیں سمجھی جاتی۔ انتظامی اختیارات کو ذاتی اور کاروباری مفادات کے لیے استعمال کرنا کہاں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے اردگرد اور ہمارے زیر دستوں کے سرپر بھی بہر صورت اپنی خواہشات کی تکمیل کی دُھن سوار ہوتی ہے اور اِس کے لیے وسائل کہاں سے آ رہے ہیں، اس سے کسی کو سروکار نہیں ہوتا اور کسی نہ کسی طرح وہ بھی ہمارے اِس عمل میں شریک ہو رہے ہوتے ہیں۔ہم چیونٹیوں کے کھانے کے لیے ہاتھیوں کے اخراجات منظور کرواتے ہیں اور چیز کی خریداری کرنے پر اپنی مرضی کی رقم بھرنے کے لیے خالی بل لینا ایک معمول کی کارروائی سمجھی جاتی ہے۔ وجوہات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جن کے سبب ہر مرحلے پر ہمارا کرپشن سے سامنا ہوتا ہے،عام آدمی کو اس کا حصہ بننے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کی 60 فیصد ابادی غربت کا شکار ہے۔ صاف پانی، طبی سہولت و تعلیمی سرگرمیوں، بجلی، گیس اور اسی قسم کی لازمی ضروریات سے محروم یہ طبقہ گداگری اور دیگر سٹریٹ کرائمز میں مبتلا ہو جاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف اجتماعی جنگ کریں۔ اج ہم جن مسائل کا شکار ہیں وہ بدعنوانی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں محب وطن طبقہ بعد عنوانی سے پاک پاکستان کا خواب دیکھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدعنوانی کے خلاف جنگ میں ہم سب ایک ہیں۔ مقاصد کے حصول کے لیے ایمانداری، محنت، حب الوطنی اور خلوصِ نیت بہت ضروری ہے، سماجی انصاف کا راستہ بد عنوانی کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔
پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے اخلاقی اقدار کا فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں کسی برائی کے خلاف جدوجہد کا انحصار معاشرہ کے اخلاقی معیاروں پر ہوتا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم کس بات کو رد اور کس کو قبول کرتے ہیں۔ اخلاقی اقدار اور جذبہء درد دل ایسے خزینے ہیں جو کسی بھی قوم کو قابل احترام بناتے ہیں۔ بدعنوانی کے رویوں کے ساتھ بد عنوانی کا مقابلہ ممکن نہیں۔کوئی نگران اگر خود بد دیانت ہو تو لوٹ میں اپنا حصہ مانگ کر کرپشن میں معاونت کرتا ہے۔ جس سے بربادی کا عمل اور گہرا ہو جاتا ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے جب تک معاشرے کا ہر فرد اپنا اپنا انفرادی کردار ادا نہیں کرے گا کرپشن کا علاج ممکن نہیں۔محکمہ انسداد رشوت ستانی کے ساتھ قدم بقدم تعاون کی