حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

9

تحریر: عاصم نواز طاہرخیلی (غازی/ہری پور)

قارئین اکرام چند دن پہلے بنگلہ دیش میں 2009 سے اقتدار پر براجمان حسینہ واجد نے استعفی دے کر ملک سے فرار اختیار کیا۔ اس استعفی کے پیچھے عوام خصوصاََ طلباء کی احتجاجی تحریک کا ہاتھ تھا۔ گو انہوں نے اپنے ملک کو معاشی طور پر بہت مستحکم کیا اور غربت میں کمی کی لیکن ترقی کی آڑ میں آمرانہ انداز نے ان کی مقبولیت عوام میں دن بہ دن کم کر دی اور بالآخر انہیں حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس استعفی سے یہ بات ثابت ہوئی کہ عوام کے دل میں بسے بغیر حکومت کو طول و استحکام نہیں دیا جاسکتا۔
عوام کے احتجاج نے اس وقت شدت اختیار کی جب گزرے جولائی میں شہدائے 1971ء کے بچوں کو سرکاری نوکریوں میں 35% کوٹہ دیا گیا اور طلباء نے اس پر احتجاجی تحریک چلائی۔ اس تحریک کو جب حکومت نے دبانا چاہا تو نتیجے میں 360 شہادتوں اور ہزاروں افراد کے زخمی ہونے نے وسیع پیمانے پر عوامی مزاحمت کو جنم دیا اور بالآخر یہ حکومت ختم ہوئی۔ بنگلہ دیش کے آرمی چیف وقار الزماں نے وقتی طور پر حکومت سنبھال لی ہے اور حالات ٹھنڈے کرنے میں کوشاں ہیں لیکن طلباء تحریک نے واضح کردیا ہے کہ وہ صرف اور صرف عوامی حکومت ہی تسلیم کریں گے۔

شیخ حسینہ 1947ء میں بنگلہ دیش کے بابائے قوم شیخ مجیب الرحمان کے گھر پیدا ہوئیں۔ آپ علیحدگیءِ بنگال 1971ء کے وقت سے ہی ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایک سٹوڈنٹ رہنما تھیں۔ 1975ء میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے صرف وہ اور ان کی چھوٹی بہن ہی فوجی قتال سے بچ پائی تھیں۔ بعد ازاں کئی برس بعد وہ واپس بنگلہ دیش لوٹیں اور اپنے والد کی جماعت عوامی لیگ کی قیادت سنبھالی۔ 1996ء میں وہ پہلی مرتبہ ملک کی وزیراعظم بنیں۔ 2001 میں وہ نیشنلسٹ پارٹی کی رہنما بیگم خالدہ ضیاء سے الیکشن میں شکست کھا گئیں۔ 2009ء کے عبوری انتخابات میں جیت کر ایک بار پھر وہ ملک کی وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ ان کا سیاسی سفر گرفتاریوں، حملوں، ملک بدری کی سازشوں اور کرپشن کے الزامات سے بھرا پڑا ہے۔ وہ حد درجہ خوشامد پسند تھیں اور اپنے والد شیخ مجیب الرحمن کے سوا کسی کو سیاست دان نہیں مانتی تھیں۔ جو فوجی افسران انکے والد کے قتل میں ملوث تھے ان کو اپنے دور میں آپ نے سر عام پھانسیاں دلوائیں۔
شیخ حسینہ تقریبا 21 برس بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہ چکی ہیں۔ پچھلے چند سال سے ان کی حکومت میں بڑھتی بدعنوانیوں کے باعث ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت نے انکی عوامی مقبولیت بہت کم کی۔ماضی کی معاشی ترقی کا فائدہ بھی زیادہ تر عوامی لیگ سے متعلقہ لوگوں کو ہی ہوا۔ ان کے دور میں بنگلہ دیش پر انڈیا کا تسلط زیادہ ہونا بھی ان کی عوامی مقبولیت کا گراف نیچے ہونے کی وجہ بنا۔ اس پر طرہ یہ کہ شیخ حسینہ واجد نے ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کی مخالفت کرنے والوں کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا۔ اس بات سے عوام بالخصوص طلباء بہت مشتعل ہوئے اور ان کا احتجاج بڑھتے بڑھتے سول نافرمانی کی تحریک میں تبدیل ہوگیا۔ فوج نے طلباء کا سامنا نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور حکومت نے طلباء کے مطالبوں جن میں وزیراعظم کی فسادات کی ذمہ داری قبول کرنا، معافی مانگنا اور مختلف وزراء اور پولیس اہلکاروں کے استعفوں سمیت کئی باتیں تسلیم کرنے سے انکار کیا اور ساتھ ہی احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں بھی شروع کر دیں۔ حکومت کے ان امور سے مطالبات اور مظاہروں میں مزید شدت آگئی اور بالآخر حسینہ واجد کو ملک سے فرار ہوکر اپنی حکومت کا خاتمہ کرنا پڑا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

بنگلہ دیش کے اس عوامی انقلاب پر پاکستانی قوم اور سیاستدانوں کی خوشی سے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسا یہ انقلاب پاکستان میں برپا ہوا ہے اور وہ بھی اس کا حصہ ہیں۔ بے شک پاکستان میں بھی پچھلے کچھ عرصہ سے حالات ایسے جارہے ہیں کہ بڑھتی مہنگائی اور سیاست دانوں کے خواب خرگوش نے عوام کو مشتعل سا کر دیا ہے۔پاکستان مختلف صوبوں، زبانوں اور قومیتوں کا اک حسین امتزاج ہے۔ اگر یہاں ایسا انقلاب رونما ہوا تو اللہ نہ کرے ہم 1977 کی طرح اپنے کئی حصے کروا بیٹھیں گے اور پھر جب جزبات کی دھول چھٹے گی تو کچھ باقی نہ ہوگا ۔ المختصر ایران انقلاب، عرب انقلاب، عراق میں صدر صدام ، مصر میں حسنی مبارک اور لیبیا میں قزافی کے جانے، افغانسان طالبان کی فتح اور دیگر ممالک میں سیاسی تبدیلیوں پر خوشی کے نعرے لگانے والی پاکستانی قوم بعد میں سر کھجاتی ہی نظر آئی ہے۔ ہمارے فلاسفر دنیا میں ہر تبدیلی کو جمہوریت کی فتح گردان کر اس کا موازنہ اپنے ملک سے کرنے لگتے ہیں۔ بے شک پاکستان کو اک انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے جس میں عوامی مینڈیٹ کا احترام ہو اور ادارے اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں مگر اس کے لیے خونی انقلاب کے بجائے سیاست دانوں اور اداروں کو اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ اگر عوام نے اپنے ووٹ کی بےقدری اور مہنگائی کے باعث تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ٹھان لی تو پھر اللہ نے کرے بنگلہ دیش والے نہیں بلکہ 1977 والے حالات درپیش ہوں گے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.