خاموشی کا درد اور ٹوٹتی آوزیں

61

تحریر ؛۔ جاویدایازخان
مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے
کہتے ہیں کہ زندگی خاموشی کو بھی خاموش کہاں رہنے دیتی ہے ۔درد کو کو بھی وقت بن کر کہاں گزر جانے دیتی ہے ۔یہ عجیب طرح سے چپ توڑتی ہے ۔عجیب طرح سے ٹیس بن بن کر ابھر اٹھتی ہے ۔یہ خاموشی کا درد بڑا خطرناک ہوتا ہے اور شاید کسی بڑے المیے کا پیش خیمہ بھی سمجھا جاتا ہے۔پھر درد اگر روز کی بات بن جاے ٔ تو درد سہنے والا ناامیدی تلے دب کر خاموش سا ہوتا محسوس ضرور ہوگا اور اس کی درد سے اٹھنے والی آوزیں اور فریادیں رفتہ رفتہ دم توڑتی لگنے لگتی ہیں ۔دوسری جانب شاید سننے والا بھی اس خاموشی کو درد میں کمی تصور کر کے خود کو مطمین کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔یاد رہے آوازوں کا ٹوٹنا کبھی درد میں کمی کی علامت نہیں ہوتا۔خاموشی درد سہنے اور برداشت کرنے کا صلاحیت اور ہمت بڑھنے کی علامت کے ساتھ ہمدردی اور مدد سے ناامیدی کا اظہار بھی سمجھی جاسکتی ہے ۔ہمیں اگر غزہ کے فلسطینیوں کی آوزیں سنائی نہیں دے رہی ہیں یا ہم تک پہنچنے نہیں دی جارہی ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ خاموش ہیں یا پھر باقی دنیا بھی خاموش ہے ۔اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ غزہ کے فلسطینوں پر ظلم و بربریت میں کوئی کمی آئی ہے ۔درحقیقت وہ دنیا بھر کو مدد کے لیے اسقدر پکار چکے ہیں کہ ان کی آواز چلا چلا کر مدہم پڑتی جارہی ہے اور شاید ان کے گلے بیٹھ چکے ہیں ۔وہ عرش کی جانب بس خاموش نگاہوں سے تکتے ہیں ۔ ان کی آہ وزاری تو پہلے ہی آسمان چیر کر ان کے رب تک پہنچ چکی ہے ۔اس مستقل درد اور کرب پر دلوں سے نکلنے والی خاموش آوازیں ہر روز ہی امید کی شمع روشن کر تی جاتی ہیں ۔انہیں یقین ہے کہ اللہ کی غیبی مدد ایک دن ضرور ان تک پہنچے گی ۔اس سیاہ رات کا بڑھتا ہو یہ گھپ اندھیرا شاید اس بات کی علامت ہے کہ ان کی زندگی اور آزادی کی ایک روشن صبح ضرور طلوع ہونے والی ہے ۔ خاموشی اور بےحسی کی اس سیاہ رات کا خاتمہ نزدیک تر ہوتا چلا جارہا ہے ۔آج فلسطینیوں کے لیے سب سے بڑی کامیابی اور جیت یہی ہوگی کہ دنیا کو بیدار کرکے ان کی خاموشی کو توڑ دیا جاے ٔ ۔کہتے ہیں مظلوم کی خاموشی بے شمار آوازوں کو جنم دیتی ہے ۔ امریکی عوام تو پہلے ہی سراپا احتجاج ہیں لیکن تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ ہوا ہے کہ خود اسرائیلی عوام اپنی حکومت اور وزیر اعظم کے ان ظالمانہ اقدامات کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے بلکہ جنگ بندی کے ساتھ ساتھ اپنی ہی حکومت اور وزیر اعظم سے مستعفی ٰ ہونے کا مطالبہ بھی کر رہی ہے ۔ جسے ایک بہت بڑی تبدیلی تصور کیا جارہا ہے ۔
گو غزہ کے فلسطینوں پر سے درد وکرب کے بادل کچھ کم نہیں ہوۓ بلکہ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں ۔آج غزہ اور فلسطین دنیا کی سب سے بڑی جیل اور پناہ گاہ بن چکا ہے اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اس تاریخی محاصرہ کو جاری ہوے چھ ماہ ہو چکے ہیں۔ جو اس تہذیب یافتہ دنیا کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ان کی بھوک اور پیاس بڑھ بڑھ کر شاید بمباری اور گولیوں سے بھی زیادہ اموات اور شہادتوں کا باعث بن رہی ہے ۔ ان پر روزآنہ بمباری اور آگ برسانے کا سلسلہ جاری ہے ۔آج تک بےگناہ فلسطینی مسلمانوں کی شہادتوں کی تعداد پینتیس ہزار تک جا پہنچی ہے ۔جن میں بیس ہزار معصوم اور بے گناہ بچے شامل ہیں ۔ایک لاکھ فلسطینی مرد ۔خواتین ۔بوڑھے اور بچے زخموں سے چور چور طبی امداد کے منتظر ہیں ۔معذوری کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔وہاں نہ ہسپتال ہی باقی بچے ہیں اور نہ کوئی طبی عملہ سلامت ہے اور نہ ادویات ہی پہنچ پارہی ہیں ۔ان مظلوموں کی نسل کشی کے لیے ظلم اور جبر کا وہ کون سا حربہ ہے جو اب تک ان پر آزمایا نہ جاسکا ہو ؟ گولیاں ،بم ،میزائل ،بھوک پیاس ،طبی امداد پر بندش ،قید وبند ، بدترین جسمانی ،ذہنی اور جنسی تشدد تو اب معمول بن چکا ہے ۔ ان کی آہ وبکا انٹرنیشنل میڈیا بھی آج دنیا کو دکھانے سے قاصر ہے کیونکہ غزہ صحافیوں کے لیے موت کی وادی بن چکا ہے۔بےشمار صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی میں جانیں گنوا چکے ہیں ۔ ایک جانب امریکہ اسرائیل کی امداد اور حمایت کا کھلا اظہار کر رہا ہے ان کی جنگی امداد میں تازہ ترین بڑا اضافہ کرکے اپنی سرپرستی اور حمایت کا کھلم کھلا اظہار کر رہا ہے اور دوسری جانب اسرائیل اس کی پشت پناہی میں فلسطینی مسلمانوں کو صٖفحہ ہستی سے مٹانے کا عزم دوہرا رہا ہے اور رفح کی جانب پوری دنیا اور اقوام متحدہ کے روکنے کے باوجود بڑھ رہا ہے جہاں بےشمار پناہ گزین پہلے ہی بھوک سے مر رہے ہیں ۔جس کو تاریخ کی سب سے بڑی خونریزی سمجھا جارہا ہے اور تیسر ی جانب اقوام عالم اور اربوں مسلمانوں کی بے حسی اور خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے ۔ گو ایران کے میزائل ،ڈرون کے حملے ان نہتے فلسطینیوں کے لیے کچھ امید کی کرن ضرور بنے تھےمگروہ ان کے مسائل کا حل تو ہرگز نہ تھے۔اس قدر طویل جدوجہد اور جذبے نے ان کے صبر کو کندن بنادیا ہے ۔ایک وڈیو دیکھی ہے جہاں ایک بےبس باپ اپنے بیٹے کا جنازہ خود اکیلا پڑھنے پر مجبور نظر آتا ہے اجتماعی قبروں کے مناظر بہت ہولناک ہیں ۔ ان واقعات اور دردناک وڈیو ز نے ایک تہلکہ مچا دیا ہے ۔پوری دنیا سراپا احتجاج ہے ۔لیکن اب پیاس سے بلکتے بچوں کی بےبسی سے دنیا بھر کی بےحسی اور خاموشی ٹوٹ رہی ہے ۔سب سے بڑھ کر امریکہ اور خود اسرائیل کے اپنے اندر اس ظلم وبربریت کے خلاف نفرت اور احتجاج میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔اب امریکہ بھر کی تمام یونیورسٹیز میں طلبا کا اسرائیل کے خلاف احتجاج قابو سے باہر ہوتا چلا جارہا ہے ۔ان یونیورسٹیز میں ہاورڈ ،کولمبیا ،یو۔سی ۔ایس ،یونیورسٹی آف ٹیکساس وغیرہ شامل ہیں اب تو وہاں کی کئی یونیورسٹیز نے احتجاج روکنے کے لیے آن لائن کلاسز شروع کردی ہیں ۔ان طلبا کا یہ احساس اور احتجاج کچھ حوصلہ افزاءعلامت ضرور ہے وہیں دنیا بھر کے آزاد ذہنوں کے لیے ایک سوال بھی ہے کہ خاموشی توڑنے نے کا وقت آچکا ہے ۔ امریکہ اور اسرائیل کی نوجوان نسل کو س بارے میں احساس ہونا اور خاموشی توڑنا دنیا بھر کے لوگوں کے لیے پیغام ہے کہ بس بہت ہوچکا ہے اب اور نہیں ؟ ۔امریکہ اور اسرائیل کی عوام انسانیت کے خلاف اس جنگ سے نفرت کرتی ہے ۔اگر میں یہ کہوں تو بےجا نہ ہوگا کہ خود یہودی اور عیسائی طلبا ان مظالم پر احتجاج کرکے نفسیاتی میدان میں بازی مار گئے ہیں تو بےجا نہ ہوگا ۔دیکھنا یہ ہے کہ اس کے اثرات باقی دنیا اور خصوصی اسلامی ممالک پر بھی نمودار ہو ں گے ؟اوران انسانیت سوز واقعات پر خاموشی کے بت ٹوٹ سکیں گے ؟ اس وقت امریکہ اور اسرائیل سمیت پوری امریکی لابی کے ممالک کو اپنے ہی اندر اپنے ہی عوام کی مخالفت اور احتجاج کا سامنا اس بات کا اشارہ ہے کہ چند لوگوں کی سوچ کو دنیا بھر کے امن پسند لوگوں اور عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔وہ لوگ اب اس بربریت اور حیوانیت پر مزید خاموش نہیں رہیں گے وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ دنیا کے اس امن کی بربادی میں نہ تو وہ حصہ دار ہی ہیں اور نہ ان کا کوئی کردار ہی ہے ۔۔یاد رہے ظلم کے خلاف اٹھنے والی آواز ہمیشہ ہتھیاروں کی کسی بھی ٹیکنالوجی سے زیادہ اثر رکھتی ہے ۔ مظلوم کے خلاف اٹھائی گئی آواز کی رسائی کسی بھی ہتھیار سے زیادہ دور تک ہوتی ہے ۔کہتے ہیں کہ چاہے کسی کی بھی ہو ہر وہ سوچ اچھی اور بڑی ہوتی ہے جو انسانیت کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.