عید کادن ہے

56

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

اپنے آبائی گاؤں میں عید منانے کا ایک اپنا مزہ ہے بلکہ اس کے کئی فائدے بھی ہیں۔ میں نے ہر سال کی طرح اس دفعہ بھی اپنے گاؤں حارث آباد پیرمحل میں عید الفطر کی نماز ادا کی اور اس کے بعد اپنے بھائی، بیٹوں، بھتیجوں, بھانجوں اور دیگر احباب کے ساتھ گزرے لمحات کو کیمرے میں محفوظ کیا گیا۔کیمرہ بھی کیا خوبصورت ایجاد ہے۔ گزرے کل کو محفوظ کرکے ماضی اور حال میں تعلق قائم کردیتا ہے۔ جو لوگ ماضی سے سبق سیکھتے ہیں وہ اپنے حال پر پوری توجہ دے کر مستقبل کو تابناک بنا لیتے ہیں۔ عزیزواقارب کا آپ کے ساتھ محبت اور اخلاص کاتعلق ہوتا ہے اور ان کے ساتھ خوشی اور غم کے مواقع پر مل بیٹھنا اس کی عملی شکل ہے۔ کافی دنوں سے میں نے اپنی شکل نہیں دیکھی تھی کیونکہ کسی نے شیشہ نہیں دکھایا تھا لہذا میں اپنے خدو خال بھول گیا تھا۔ اپنی اوقات بھول گیا تھا بلکہ میں تو اپنے آپ کو ہی بھول گیا تھا۔ آج اپنی جسامت کا از سر نو جائزہ لیا تو ورزش کرنے کا خیال آیا۔ ویسے تو مجھے ورزش کے فوائد کا مضمون بھی یاد آگیا جو میں نے آٹھویں جماعت میں یاد کیا تھا۔ اس کے علاوہ عید والے دن بہت کچھ یاد آگیا۔ اماں ابا یاد آئے۔ ان کے احسانات اور محبتیں یاد آئیں ان کی قربانیاں یاد آئیں۔ ان کا میری ناکامی پر نمناک ہونا یاد آیا اور میری کامیابی پر ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو یاد آئے۔ ان کا میرے لئے اپنے رب سے گڑگڑا کرسب کچھ مانگنا یاد آیا اور پھر ان کا ایک دن اچانک موت کی آغوش میں اچلے جانا۔ ماں کی آغوش اور قبر کی آغوش میں اتنا فرق ہوتا ہے۔ جتنا ماں باپ اور چاچے مامے میں فرق ہوتا ہے۔ پھر چھوڑ جانے والے بہن بھائی یاد آئے۔ ان کے ساتھ بیتے ہوئے سارے لمحے یاد آگئے۔ان کے ساتھ لاڈ پیار کے سارے معاملات یاد آگئے۔ان کے میرے ساتھ راہ ورسم یاد آئے ایک دوسرے پر مان کرنے اور ایک دوسرے پر حق جتانے کا انداز یاد آیا۔ آپس میں چھوٹی چھوٹی بات پر الجھنا اور پھر سارا کچھ بھول بھلا کر ایک ہو جانا یاد آیا ۔ وہ ڈر بھی یاد آیا جو اندھیری راتوں میں ہم سب کو آتا تھا۔ انسان کی اپنوں کو موت سے بچانے کے سلسلے میں بے بسی یاد آئی۔ سہاگ رات میں کئے گئے عہد وپیمان یاد آئے بلکہ زیست اور پیمان شب اور شب ہجراں۔ اساتذہ یاد آئے ان کی مبنی براخلاص سزاؤں کے انداز یاد ائے۔ دوست احباب یاد آئے پھر اپنے گاؤں کے گلی کوچے یاد آئے۔ شہروں میں جا کر گم ہو جانا یاد آیا اور پھر اپنی حقیقت کو بھول جانا یاد آیا۔ یادیں اور وہ بھی المناک، غضبناک، خوفناک اور سفاک یادیں۔ دل اداس ہو گیا۔ آواز بھرا گئی۔ دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ آنکھوں نے چھم چھم برسنا شروع کر دیا۔ روح بے چین ہو گئی اور جسم مضمحل ہو گیا۔ یہ اچانک مجھے کیا ہو گیا ۔ دن عید کا ہے اورماجرا ہجروفراق اور سوزوگداز کا۔ ساز اور آواز بھی ساکت ہو گئے۔ دماغ تاحال کام کررہا ہے اور اس کامشورہ ہے کہ بھلن ہار بن جاتے ہیں اور ساری توجہ اپنے آنے والے کل پر دیتے ہیں۔ ارد گرد کے ماحول کو پیش نظر رکھنا ہوگا اور اپنے آپ پر توجہ دینا ہوگی۔ کسی صنف نازک پر نظر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم نظر تو پھر نظر ہے اٹھ بھی سکتی ہے اور نازک حالات میں انسان سکتے میں بھی جا سکتا ہے۔ زیادہ فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اپنوں کے ساتھ مل کر عید مناتے ہیں اور اپنی آنے والی زندگی کو قابل رشک بناتے ہیں
رشک سے نام نہیں لیتے کہ سن لے کوئی
دل ہی دل میں ہم تجھے یاد کیا کرتے ہیں
روزہ برات ہے۔ گناہوں کے خلاف ڈھال ہے۔ تقوی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس ماہ مقدس میں شیطان کو قید کردیا جاتا ہے اور وہ ایسا ازلی بدبخت ہے کہ جیل کی سلاخوں سے بھی سازشوں کے کامیابی سے جال بنتا ہے اور مظلوم انسان ظالم بن کر لوٹ کھسوٹ اور اس قسم کے لاتعداد جرائم کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ شیطان اور انسان قافیے کے اعتبار سے ملتے جلتے ہیں ویسے یہ آپس میں بھی روز ملتے ہیں اور انسان شیطان کا اثر قبول کرتا ہے تاہم شیطان لعین ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ شاید انسان قبول ہے قبول ہے کے الفاظ کو دہرانا لازمی سمجھتا ہے اور یوں شیطان کے نشانے کا بھی آسانی سے شکار ہو جاتا ہے۔ اسلام نے شکار کی حدود و قیود مقرر کی ہوئی ہیں تاہم اس بات سے سارے شکاری آگاہ نہیں ہوتے ہیں امت مسلمہ کی بڑے وسیع بنیادوں پر تعلیم وتربیت کی اشد ضرورت ہے۔ بہرحال عید کا دن ہے اور آج کے دن روزہ اور عید سعید پر ہی فوکس ہونا چاہیئے۔ رمضان کا مہینہ مسلمان کے لئے بہت بڑا ٹارگٹ ہے۔ سارا دن بھوکا پیاسا رہنا۔ ہر قسم کی کثافتی سرگرمیوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھنا۔ جسم کے ہر ہر عضو پر پہرہ دینا تاکہ روزے کا مقصد پورا ہوجائے۔ شب وروز اپنے آپ کو عبادت کی حالت میں تصور کرنا۔ صلوۃ قائم کرنا اور رات کے لمحوں میں نوافل کی ادائیگی کیونکہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نوافل عبد کو معبود سے ملادیتے ہیں۔ پھر تراویح اور جب قرآن پڑھا جا رہا ہو تو خاموش ہو جاو اور غور سے سنو۔ ہمہ تن گوش بلکہ تن اور من دونوں یکسو۔ مزید طاق راتوں میں لیلہ القدر کی تلاش اور ملائکہ اور روح الامین کا ساری رات فرش پر گھومتے پھرتے رہنا اور مشتاق،طالب اور عاشق کو تلاش کرنا۔ ہے کوئی چاہنے والا۔ چاہت ہی تو اصل چیز ہے۔ چاہت سے وصل وقوع پذیر ہوتا ہے اور من و تو کا فاصلہ ختم ہو جاتا ہے۔ لطافت کثافت پر غالب آجاتی ہے۔ بدن روح کے سامنے سرنڈر کردیتا ہے بلکہ انسان رحمان کے سامنے گردن جھکا دیتا ہے اور تسلیم ورضا کا عملی مظاہرہ عرش اور فرش والوں کو دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور اس طرح روح امر ربی کی عملی تفسیر پیش کرتی ہے۔ روزہ تو احساس آدمیت بھی ہے۔ روزانہ بھوکا رہنے والوں کے شب وروز کیسے گزرتے ہیں۔ پھر فطرانہ اور خیر خیرات۔ خالق کائنات اپنی مخلوق کو یک جا کرنا چاہتا ہے۔ وہ تو آدم کی اولاد کو ایک جیسا دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ تو مواخات کے ادارے کو مضبوط کرنا چاہتا ہے اور وہ تو معاشرتی عدم استحکام کو ختم کرکے امن اور سکون کی فضا قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ ہے روزہ اور ماہ مقدس کے دوران مسلمان کے لئے مطلوبہ اہداف ہے اور ان اہداف کو پورا کرنے والے کا اجر صرف اور صرف اللہ کے پاس ہے اور اللہ تعالی کے انعام و اکرام۔ اللہ اکبر اللہ اکبر۔ جب ایسا ٹارگٹ پورا ہوگا تو اس سے بڑھ کر اور خوشی کا دن کیا ہوگا۔ یہی دن تو ہے عید کا دن۔ کھاو پیو عیش کرو لیکن عیش میں اپنے ہم جنسوں کو نہیں بھولنا۔ ہاتھ کھلا رکھو بلکہ ہاتھ کھلے رکھو اور مصافحہ اورمعانقہ اور چہرے پر مسکراہٹ اور خندہ پیشانی۔ اپنے درمیان پائی جانے والی منافرت، شکررنجی اور شکوک و شبہات کی مستقل بنیادوں پر تدفین۔ (عید کا دن ہے گلے ہم کو لگا کر ملئے رسم دنیا بھی ہے موقعہ بھی ہے دستور بھی ہے) آئیے روزے اور فلسفے کو اچھی طرح سمجھ کر دوسروں کو سمجھاتے ہیں اور اس پیغام کو عام کرتے ہیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.