ملک میں نئے 12 صوبوں کی تجویز سننے میں آرہی ہے اور حیرت کی بات ہے کہ اس میں ہزارہ صوبے کا نام شامل نہیں ہے۔ اول تو اس ملک کو ون یونٹ ہونا چاہیے، بصورت دیگر زیادہ سے زیادہ صوبے ہی بڑے صوبوں کی اجارہ داری توڑ سکتے ہیں۔
اگر ہزارہ کی بات کی جائے تو دریائے اباسین اسے باقی صوبے سے الگ کرتا ہے۔ مرکز سے یہ دوری اسے ہمیشہ سے محرومیوں میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ دریا اور پہاڑ قدرت کی طرف سے کی گئی وہ ارضی تقسیم ہیں جو یہاں بسنے والے لوگوں کی زبان، بود و باش حتی کہ ترجیحات تک کو بھی تقسیم و تبدیل کر دیتی یے۔
کوئی بھی تقسیم اگر محض لسانی بنیادوں پر ہو تو اسے قطعاََ درست نہیں کہا جاسکتا لیکن ہزارہ کسی ایک زبان اور قوم کا نام بالکل نہیں۔ یہ تو ایک خطے کا نام ہے جس میں مختلف زبانیں بولتی قومیں رہتی ہے۔تعصب اور لسانیت سے ہٹ کر صوبہ ہزارہ اس خطے میں بسنے والوں کیلیے ناگزیر ہے۔ میرے خیال میں تو انتظامی ضروریات کے تحت صرف ہزارہ نہیں بلکہ بلکہ ملک میں دیگر صوبوں کی بھی بہت ضرورت ہے۔ پہلے ضلع ہزارہ تھا جو کئی اضلاع میں تقسیم ہو چکا۔ ایبٹ آباد مانسہرہ اور کوہستان مشتمل ہزارہ ڈویژن بنا پھر ضلع ہری پور بنا اس کے بعد بٹگرام وجود میں آیا پھر تورغر اس کے بعد کوہستان سے تین اضلاع یعنی اپر کوہستان، لوورکوہستان کولٸی پالس کوہستان۔ اگر ان سب اضلاع کو ملا کر صوبہ ہزارہ بنایا جاٸے تو یہ انتظامی طور پر ہزارہ والوں پر اک احسان ہوگا۔
ہزارہ کی اقوام کا یہ مطالبہ قطعاََ نسلی اور لسانی نہیں ہے۔یہاں سترہ سے زیادہ قبائل بستے ہیں اور چھ سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں۔ یہ قطعاََ کسی ایک قوم یا زبان کا نام نہیں ہے۔ ہزارہ مختلف اقوام مثلاََ طاہرخیلی، سواتی، تنولی، جدون، دلزاک، پنی، سلمانی، ترین، اتمانزئی، یوسفزئی، مغل، قریشی، سید، مشوانی، گجر، اعوان اور دیگر کئی اقوام پر مشتمل خطے کی الگ پہچان کا نام ہے جو ہندکو،پشتو، گوجری اور کوہستانی سمیت کئی زبانیں بولنے والوں کا گلدستہ ہے۔۔۔
آئین اور قانون عوام کی مشکل کو نہیں بلکہ سہولت کیلئے ہوتے ہیں۔ یہ کیسی سہولت ہے کہ کوہستان (ہزارہ) سے پشاور کو جانے میں ایک دن کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی آبادی جب 3 کروڑ تھی اس وقت بھی چار صوبے تھے اور اب 24 کروڑ کی آبادی میں بھی یہی حال ہے۔ جہاں نئے ضلعے، تحصلیں اور ڈویژن بنتے ہیں وہاں اگر نئے صوبے بھی بن جائیں تو کیا حرج ہے۔
ہزارہ کے عوام نے 1957ء سے نئے صوبے کے قیام کیلیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ غالباََ 2010ء میں اس سلسلے میں سات جانوں کی قربانی بھی پیش کی جاچکی۔ اس مطالبے کو لسانی رنگ دینے والے پختونخواہ اور پنجاب وغیرہ کے نام پر کیا دلیل دیں گے؟ المختصر ہزارہ اس ملک کا اک خوبصورت اور قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ ہے جو اپنی اک الگ ثقافت رکھتا ہے۔ انتظامی طور پر یہ مرکز سے دور ہے اور اس خطے پر دریائے اباسین کی صورت میں قدرتی تقسیم بھی موجود ہے۔ اس لیے ہزارہ اور اسی کی طرح انتظامی طرز پر دیگر صوبوں کا قیام بھی ضروری ہے ورنہ محرومیاں انتظامی سے ہٹ کر لسانی اور قبائلی بنیادوں پر تقسیم کی راہ ہموار کرتی رہیں گی جن کا ہمارا ملک قطعاََ متحمل نہیں ہوسکتا۔