حسینی کردار اور امت کا نوجوان

فرحان علی اویسی

3

محرم کا مہینہ کوئی عام مہینہ نہیں یہ قربانی وفا سچائی غیرت شعور اور بیداری کا استعارہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جو ہمیں صدیوں پرانا نہیں بلکہ ہمیشہ نیا سبق دیتا ہے یہ ہر سال ہمیں جھنجھوڑتا ہے ہمیں آئینہ دکھاتا ہے اور ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم صرف آنسو نہ بہائیں بلکہ سوال کریں یہ مہینہ خاص طور پر نوجوانوں کو آواز دیتا ہے کہتا ہے کہ اے نوجوان تم امت کا سرمایہ ہو تم امت کی امید ہو تم وہ ہو جن کے کاندھوں پر کل کا اسلام ہے تو پھر بتاؤ تم کہاں ہو تم کس طرف ہو تم کس کی فکر کے وارث ہو حسین کے یا یزید کے۔ امام حسین نے کوئی تاج و تخت کے لیے سفر نہیں کیا وہ تو مکہ چھوڑ کر کوفہ کی طرف اس لیے روانہ ہوئے تھے کہ وہ ظلم کے خلاف اپنی خاموشی کو گناہ سمجھتے تھے وہ جانتے تھے کہ وقت آ چکا ہے جب خاموشی جرم بن جاتی ہے جب حاکم ظالم ہو قوم خاموش ہو اور سچ بولنے والا اکیلا ہو تب حسین جیسا کردار ہی تاریخ کو بچا سکتا ہے وہ جانتے تھے کہ ان کی قربانی ایک وقت آنے والی نسلوں کو یہ سکھائے گی کہ باطل کے سامنے جھکنا حرام ہے چاہے قیمت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ آج کا نوجوان کس حال میں ہے کیا وہ جانتا ہے کہ اس کی روحانی طاقت کیا ہے کیا اسے احساس ہے کہ اس کی انگلیوں کے نیچے جو موبائل ہے اس سے وہ حق بھی پہنچا سکتا ہے اور فحاشی بھی کیا اسے معلوم ہے کہ امام حسین نے اپنی زبان سے صرف نعرہ نہیں لگایا بلکہ اپنا سب کچھ قربان کیااپنے بیٹے اپنے ساتھی حتی کہ اپنا خون زمین پر بہا دیا صرف اس لیے کہ کل کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ حق خاموش رہا۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی جان اور مال خرید لیے ہیں جنت کے بدلے کیا ہم نے یہ سودا کیا ہے کیا ہم نے اپنے نفس کو اپنی خواہشات کو اپنے وقت کو اپنے وسائل کو اللہ کے لیے وقف کیا ہے یا ہم نے اپنا ہر لمحہ انٹرٹینمنٹ کے نام پر گنوا دیا ہے امام حسین نے تو اپنے بچے بھی قربان کر دیے اور ہم موبائل سے فحش مواد نہیں چھوڑ سکتے ہم جھوٹ بولنا نہیں چھوڑ سکتے ہم اپنی محفلوں سے غیبت نہیں نکال سکتے تو پھر ہم کس منہ سے کہتے ہیں کہ ہم حسینی ہیں۔ امام حسین کا پیغام وقت سے بالاتر ہے ان کا کربلا ایک لمحے کا واقعہ نہیں یہ ایک مسلسل دعوت ہے ایک آواز ہے جو ہر صدی ہر قوم ہر فرد کو بلاتی ہے آؤ اگر تم زندہ ہو تو جاگو اور جو جاگتا نہیں وہ مردہ ہے چاہے سانسیں چل رہی ہوں۔ آج کے یزید تلواروں کے ساتھ نہیں آتے وہ دماغوں کو قید کرتے ہیں نظریات میں زہر گھولتے ہیں میڈیا کے ذریعے باطل کو خوبصورت بنا کر پیش کرتے ہیں وہ الحاد کو ترقی کا نام دیتے ہیں بے حیائی کو آزادی کہتے ہیں اور دین کو دقیانوسیت اس حملے سے صرف وہی نوجوان بچ سکتا ہے جو حسینی کردار کو اپنی روح میں بسا لے جو صرف تقریریں نہ سنے بلکہ کردار میں اتار لے۔ ایک نوجوان کی بیداری ایک انقلاب کی شروعات ہو سکتی ہے امام حسین کی فوج میں بہتر افراد تھے لیکن وہ وقت کے فرعون کے سامنے ڈٹ گئے آج ہمارے پاس تعداد ہے تعلیم ہے وسائل ہیں مگر ہم بکھرے ہوئے ہیں کیوں کیونکہ ہمیں وہ مقصد بھول گیا جوامام حسین کو یاد تھا ۔ محرم ہمیں صرف ماضی کی یاد نہیں دلاتا یہ ہمیں مستقبل کی تیاری کا حکم دیتا ہے یہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم صرف آنسو بہانے آئے ہیں یا چراغ جلانے کیا ہم صرف روایتوں کے اسیر ہیں یا شعور کے علمبردار جب تک ہمارا دین صرف محرم کی مجلسوں رمضان کی عبادات اور عید کی خوشیوں تک محدود ہے ہم حسین کے پیروکار نہیں۔ حسینی ہونا صرف کربلا یاد کرنا نہیں بلکہ کربلا جینا ہے اگر دفتر میں جھوٹ بولا تو حسینی نہیں اگر رشوت لی تو حسینی نہیں اگر بہن کی عزت نہ کی تو حسینی نہیں اگر وقت ضائع کیا تو حسینی نہیں اگر حرام کمایا تو حسینی نہیں حسینی وہ ہے جو ہر دن اپنے نفس کے یزید کو قتل کرے جو ہر صبح حق پر جینے کا عہد کرے جو ہر رات اپنا محاسبہ کرے۔ قرآن ہمیں بار بار بتاتا ہے کہ صبر حق اور تقوی کی راہ ہی کامیابی کی راہ ہے امام حسین نے یہ سب کچھ کر کے دکھایا انہوں نے ہمیں بتا دیا کہ مومن کبھی ظالم کے آگے سر نہیں جھکاتا آج ہمیں پھر سے اسی پیغام کی ضرورت ہے کیونکہ ظلم پھر سے غالب ہے حق پھر سے لاوارث ہے اور قوم پھر سے غفلت میں ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ علم حاصل کریں مگر شعور کے ساتھ وہ جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائیں مگر ایمان کے ساتھ وہ سیاست کو سمجھیں مگر اصولوں کے ساتھ وہ میڈیا استعمال کریں مگر مقصد کے ساتھ وہ کمانے کے لیے نکلیں مگر حلال طریقے سے وہ شادی کریں مگر دین کو بنیاد بنا کر وہ بولیں مگر سچ وہ جئیں مگر صرف اللہ کے لیے۔ جو قومیں اپنے ماضی کو بھول جاتی ہیں ان کا مستقبل کبھی روشن نہیں ہوتا امام حسین صرف ایک شخصیت نہیں وہ ایک مکتب فکر ہیں ایک تحریک ہیں ایک کردار کا نام ہیں جس نے بھی ان کے راستے پر قدم رکھا وہ زندہ رہا اور جس نے انکار کیا وہ تاریخ میں دفن ہو گیا یہ وقت ہے کہ ہم اپنے دل سے پوچھیں کیا ہم حسینی ہیں کیا ہماری زندگی میں وہ سچ وہ قربانی وہ صبر وہ استقامت وہ غیرت وہ شعور وہ توکل وہ خدا پرستی ہے اگر نہیں تو پھر ہمیں خود کو بدلنا ہوگا۔ امام حسین نے ہمیں دکھایا کہ اللہ کی رضا کے سوا کوئی مقصد نہیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.