ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ کیا ہم حادثات کی منتظر قوم بنتے جارہے ہیں ؟ کہ کوئی حادثہ ہوتو چند دن شور مچا کر اور فوٹو سیشن کروا کر خاموش ہو جاتے ہیں ؟ پھر اگلے کسی حادثے اور سانحے تک مجرمانہ خاموشی اور بےحسی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ابھی قوم سانحہ سوات کے لرزہ دینے والے تاریخی صدمے سے باہر نہیں آئی تھی کہ میرے شہر احمدپور شرقیہ کے قریب ایک اسکول وین نما کوسٹر جو ایل پی جی سے چلتی تھی اچانک آگ کی لپیٹ آگئی یہ کوسٹر طالبات کو امتحان کے بعد احمدپور شرقیہ سے لیاقت پور جاتے ہوۓ حادثے کا شکار ہو گئی ڈرائیور موقع سے فرار ہو گیا ۔کوسٹر میں سوار ایک بچی کی شہادت اور باقی بہت سی بچیوں کے جھلس کر جلنے کی دردناک اطلاع نے پورے علاقے کو سوگوار کردیا ہے ۔ حادثے کے بعد جو مناظر دیکھنے میں آۓ وہ دل کو چیر دینے والے تھے ۔جلتے انسانی جسم ،روتے والدین اور چیختی بچیاں انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی تھے ۔یہ ایل پی جی کی لیکج سے آگ لگنے کا پہلا حادثہ نہیں ہے اس قبل ایسے بےشمار واقعات سامنے آچکے ہیں اور بےشمار جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور نہ ہی پاکستان میں یہ خبر کوئی خاص خبر ہے کیونکہ آۓ دن یہاں سڑکوں ،چوکوں ،چوراہوں پر لوگ ایسے ہی حادثوں میں اکثر مرتے رہتے ہیں ۔ہمارا ماضی ان سستے سلنڈروں کی لیکج سے ہونے والے تلخ حادثات سے بھرا پڑاہے ۔ مجال ہے کہ کسی کے کانوں پر جوں بھی رینگتی ہو وقتی کاروائی ہوتی ہے چند پبلک ٹرانسپورٹ کی پکڑ دھکڑ اور پھر سپرداری کا قانون پھر سے انہیں سڑکوں پر رواں دواں کر دیتا ہے ۔ہر حادثے پر ایک چیخ بلند ہوتی ہے اور پھر اگلی ایسی ہی کسی چیخ تک مصلحت کا شکا ر ہو کر رہ جاتی ہے ۔سانحہ سوات میں تو لوگوں پر شوق شوق میں لاپرواہی اور سیلفی لینے کے شوق جیسے بھونڈے الزمات لگا کر وجہ بنانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ لیکن یہاں اس حادثے میں کسے موردالزام ٹھہرائیں گے ؟ ان معصوم بچیوں کو جو اس بند ڈبے نما کوسٹر میں پھنس کر جھلس گئی ہیں ؟ یا پھر سستے سلنڈروں سے گاڑیاں چلانے والے لالچی مالکان کو جو چند پیسوں کی خاطر قوم کی بچیوں کی جانیں داو پر لگا دیتے ہیں ؟ یا پھر وہ ادارے جن کا کام ایسی گاڑیوں کو چیک کرنا اور انہیں روڈ پر آنے دینے کی اجازت دینا ہے ؟ ہمیں بطور قوم یہ سوچنا ہوگا کہ ایسے حادثات کب تک ہمیں یونہی ہمیں جھنجھوڑتے رہیں گے ؟ کیا ہمارے بچے یوں ہی ان سلنڈروں کے شعلوں میں جھلستے رہیں گے ؟ کب تک ہم یہ بےحسی کی چادر اوڑھے بیٹھے رہیں گے ؟ کب تک یہ معصوم بچیاں علم لینے نکلیں گیں اور آگ لے کر آئیں گیں ؟
ہمارے ملک میں تعلیم ایک خواب ہے اور بچیوں کی تعلیم تو خواب کے اندر ہی ایک خواب ہوتا ہے ۔صبح صبح ابھی رات کے اندھیرۓ ختم نہیں ہوتے کہ اور بچے نیند اور خوابوں کی نرم چادر تانے ہوتے ہیں تو ان مائیں ان کی اسکول و کالج کی وردیاں سمیٹ کر استری کر رہی ہوتی ہیں ۔ ان کے بستوں میں کتابیں اور ان کے امتحان کے لیے اشیاء ضرورت رکھ کر اس دعا کے دیے جلا رہی ہوتی ہیں کہ میری بچی علم کے حصول کے لیے سلامت جاۓ اور سلامت واپس آے۔اور پھر اس کی واپسی تک اس کے اچھے امتحان اور خریت سے واپسی کی دعائیں کرتیں ہیں ۔مگر احمدپور شرقیہ کے قریب اس کوسڑ میں بیٹھی وہ بچیاں کہاں جانتی تھیں کہ علم کی تلاش میں نکلا ان کا یہ سفر شعلوں اور دھوئیں کی گود میں اختتام پذیر ہو گا ؟ایک لمحہ ۔۔ایک چنگاری ۔۔اور پوری کوسٹر آگ کا گولہ بن جاۓ گی اور پھر چیخوں ،دھوئیں ،دوڑتے قدم ،بچ نکلنے کی جدوجہد ،پگھلتے سپنے سب خاموش سسکیوں میں ڈوب جائیں گے ۔ہنستی کھیلتی بچیاں جلے ہوۓ جسموں سے نکالی جائیں گیں ۔اس حادثے کے مناظر وہ ہی نہیں جو میڈیا پر صرف لمحہ بھر کے لیے چل کر ختم ہو جائیں گے بلکہ یہ وہ مناظر ہیں جو کسی باپ کی بینائی ،کسی ماں کی امیدوں اور کسی خاندان کے کل کو راکھ کر دیتے ہیں ۔ان بچیوں کے جسموں پر جلنے کے نشان پوری زندگی ان کو یہ حادثہ یاد دلاتے رہیں گے ۔کہتے ہیں کہ حادثے موجودہ معاشرے کا امتحان اور ان کے مستقبل کے لیے سبق ہوتے ہیں ۔
یہ واقعہ اپنی نوعیت ایک نہایت دل دہلا دینے والا سانحہ ہے ،جو احمدپورشرقیہ یا جنوبی پنجاب ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے ٹرانسپورٹ نظام ،حفاظتی اقدامات اور اداراجاتی غفلت پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن کر ابھرا ہے ۔یہ صرف ایک کوسٹر میں آگ لگنے کا معمولی واقعہ نہیں بلکہ ہمارے بوسیدہ ،لاپرواہ ،اور جان لیوا نظام ٹرانسپورٹ کی قلعی کھلنے کا اعلان تھا ۔ یہ واقعہ کیونکہ موٹر وۓ پر ہوا ہے اس لیے شاید آگ پر جلد قابو پا لیا گیا اور باقی بچیوں کو محفوظ بنا لیا گیا ورنہ جانی نقصان زیادہ بھی ہو سکتا تھا ۔ وجہ شارٹ سرکٹ بتائی جاتی ہے ۔یہ شعلے فقط ایل پی جی سلنڈر سے نہیں نکلے تھے یہ ہماری بےحسی ،کرپشن اور ادارہ جاتی نااہلی کے دہکتے انگارے تھے جنہوں نے کوسٹر کو لمحوں میں جلاکر راکھ کر دیا ۔کیا کسی نے پوچھا کہ کس نے اس گاڑی کو فٹنس سرٹیفکیٹ دیا تھا ۔کیا کوئی ادارہ جاگا کہ اسکول وین میں ایل پی جی کا سلنڈر کیوں نصب تھا ؟ کیا کوئی والدین کو یہ بتا سکتا ہے کہ آگ سے جھلسنے والی ان بچیوں کا قصور کیا تھا ؟ اسکول جانے والی بچیوں کی کوسٹر کو زیادہ ایندھن بچانے کے لیے ایل پی جی پر ڈالا گیا جو نہ صرف غیر معیاری تھی بلکہ موت کا پروانہ ثابت ہوئی ۔یہاں بچوں کی جانوں سے زیادہ چند پیسوں کی بچت کو ترجیح کیوں دی جاتی ہے ؟ ان سوالوں کے جواب کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔یہ واقعہ نہ صرف متاثرہ خاندانوں کے لیے قیامت سے کم نہیں بلکہ ایک قومی المیہ ہے ۔ اور بحیثیت قوم ہم سب انفرادی اور اجتماعی طور پر اس کے ذمہ دار ہیں ۔ہمیں اب جاگنا ہو گا ورنہ یہ شعلے ہمارے ہی نہیں کسی اور کے بچوں کو نگلنے میں دیر نہیں کریں گے ۔
ہمیں اب صرف “افسوس ” یا “تحقیقات ت جاری ہیں ” جیسے بیانات سے نکلنا ہو گا ۔اور اپنے بچوں سے محبت کا ثبوت اپنے عمل سے دینا ہو گا ۔ اپنے بچوں کے تعلیمی راستے سے یہ دہکتے شعلے بجھانا ہوں گے۔ ا پنی نئی نسل کو ایسے حادثات سے بچانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی اقدامات اٹھانا ہو ں گے ۔ان وجوہات کی نشاندہی کرنی ہے جو ایسے حادثات کا باعث بنتے ہیں ۔ فی الحال توا یل پی جی سے چلنے والی تمام پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی لگانا ہوگی ۔اسکول وینز کی لازمی رجسٹر یشن ،تربیت یافتہ ڈرائیور اور حفاظتی معائنہ ضروری قرار دیا جا چاہیے اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت لازم قرار دی جاۓ ۔حادثے کے ذمہ داروں کو سخت قانونی شکنجوں میں لایا جانا چاہیے ۔متاثرہ بچیوں کے علاج ،تعلیم اور بحالی کے لیے ایک مستقل فنڈ قائم کیا جانا چاہیے ان کا جسمانی علاج اور نفسیاتی معاونت ضروری ہے کیونکہ جسمانی زخم شایدوقت کے ساتھ بھر جائیں مگر ذہنی صدمہ عمر بھر ساتھ رہتا ہے ۔۔سب سے بڑھ کر والدین اور معاشرے کو شعور دیا جاۓ کہ سستا سفر اکثر مہنگے نقصان پر منتج ہوتا ہے ۔حکومتی سطح پر اس واقعہ کی سخت ترین قانونی کاروائی ہونی چاہیے اور تحقیقات کے ذریعے ان عناصر کو ضرور بے نقاب کر نا چاہیے جو اس وقعہ کے ذمہ دار ہیں ۔ پیٹرول ،ڈیزل ،مٹی کاتیل بیچنے اور گیس سلنڈر بھرنے کا کام شہروں میں سرعام دوکانوں پر بلا کسی حفاظتی انتظام ہو رہا ہےجو کسی وقت بھی کسی ناخوشگوار واقعہ کو جنم دے سکتا ہے ۔
بظاہر یہ تحریر اس واقعہ پر ایک کالم ہے لیکن یہ ایک چیخ بھی ہے کہ ان ماوں کی کی چیخ جو آج بھی اپنی بچیوں کے جھلستے جسموں کو دیکھ کر بے ہوش ہو جاتی ہیں ۔یہ چیخ ہے ان جھلسی بچیوں کی جو اب آئینے سے ڈرتی ہیں اور یہ چیخ ہے آنے والے کل کی جو ہم سے سوال کرے گا کہ ” جب وہ جل رہی تھیں تب تم کہاں تھے ” ؟