صدا بصحرا
رفیع صحرائی
پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے پسِ پردہ حقائق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب کے ساتھ اکٹر ایسا ہوا ہے کہ ادھر ہم کوئی دعا یا خواہش کرتے ہیں اور اگلے ہی لمحے وہ پوری ہو جاتی ہے۔ تب ہم بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں کہ کاش اس وقت اللہ تعالیٰ سے کچھ اور ہی مانگ لیتے۔ شاید وہ بھی قبولیت ہی کی گھڑی تھی جب پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ کہا تھا کہ “ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے”۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جذبے اور عزم کی لاج رکھ لی۔ آج پاکستان ایٹمی طاقت بن کر الحمدُ للہ ناقابلِ تسخیر قوت بن چکا ہے۔
پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ آخر کیا وجہ تھی کہ پاکستان کو ایٹم بم جیسا مہلک ہتھیار بنانا پڑا؟ آج ہم اسی بات کا جائزہ لیں گے۔
دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر جب امریکی صدر ٹرومین کے حکم پر جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے تو پوری دنیا خوف زدہ ہو گئی کہ کرہ ارض تباہی کے دہانے پر آ کھڑا ہوا ہے۔ ٹرومین جیسا کوئی بھی جنونی امریکی صدر زمینی دنیا کے کسی بھی خطے کو ایک لمحے میں صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے۔ طاقت کا توازن بگڑ کر امریکہ کی طرف جھک چکا تھا۔ چنانچہ امریکہ کی طاقت کے پلڑے کو اپنی جگہ واپس لانے یا اپنے پلڑے کو جھکانے کے لیے روس، برطانیہ، فرانس اور چین نے بھی مہلک ہتھیار بنانے میں دیر نہ کی۔ ان ممالک کے اس اقدام سے MAD ( Mutually Assured Destruction ) کے نظریے نے جنم لیا۔
ہندوستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ ہندو ایک ہزار سالہ غلامی سے آزاد ہوئے تھے۔ وہ بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے تھے چنانچہ ہندوستان نے بھی اس جانب پیش قدمی کی اور 18 مئی 1974 کو اس نے ایٹمی دھماکے کر کے اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کر دیا۔ ہندوستان نے شروع دن سے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ اکھنڈ بھارت کا نعرہ ہر دور میں ہندوستانیوں کو مرغوب رہا ہے۔ قبل ازیں 1971 میں بھارت جارحیت اور مکاری کے ذریعے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر چکا تھا۔ بھارت کے ایٹمی طاقت بن جانے سے پاکستان کے وجود کو خطرات لاحق ہو چکے تھے۔ پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو ایک بیدار مغز اور ذہین حکمران تھے۔ 1966 میں وہ اعلان کر چکے تھے کہ اگر بھارت نے ایٹم بم بنا لیا تو چاہے ہمیں گھاس کھانا پڑے، ہم بھی ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ یہ بات قومی مفاد میں نہیں کہ ہمارے پاس بندوق تو موجود ہو لیکن کارتوس نہ ہو۔ بھارت نے ایٹمی دھماکہ کر کے خطے میں طاقت کے توازن کو نہ صرف بری طرح بگاڑ دیا تھا بلکہ اس کا غرور بھی ساتویں آسمان پر پہنچ چکا تھا۔ بھارت کا اصل مقصد پاکستان سمیت پورے خطے کے ممالک پر اپنی برتری جتانا تو تھا ہی لیکن اس کا اصل ٹارگٹ پاکستان تھا جس پر قبضہ کر کے وہ اپنا اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کرنا چاہتا تھا۔
پاکستان کی اقتصادی اور معاشی حالت کافی کمزور تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ایٹمی کمیشن کے سربراہ بھی خود ہی تھے۔ انہوں نے فرانس سے ری پراسیسنگ پلانٹ کی خریداری کے معاہدے کی تمام شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر دستخط کر دیئے کہ وہ ہر صورت میں اور جلد از جلد پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانا چاہتے تھے۔ معاہدے کی منظوری کے بعد اب ان کے سامنے اس ری پراسیسنگ پلانٹ کی قیمت کی ادائیگی ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔ 300 مین ڈالر ایک بڑی رقم تھی۔ تب لیبیا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور عراق پاکستان کی مدد کو آگے بڑھے اور پاکستان کو مالی پریشانی سے آزاد کر دیا۔
پاکستان نے ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ کے لیے مزید مشینری اور پرزے کہاں کہاں سے خریدے اور ہماری مایہ ناز آئی ایس آئی نے کیسے انہیں پاکستان پہنچایا یہ سرفروشی اور جذبہ حب الوطنی کی ایک الگ داستان ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل محمد ضیاءالحق نے بھی اس سلسلے میں بھرپور کام کیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سب سے بڑا مخالف اسرائیل تھا۔ اسے پتا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے سے مسلم بلاک مضبوط ہو گا۔ امریکہ کے ذریعے اس نے پاکستان پر بھرپور دباؤ ڈلوانے کی کوشش بھی کی۔ شاید اسرائیل اپنے مقاصد میں کامیاب ہو بھی جاتا لیکن افغانستان میں روسی مداخلت کی وجہ سے امریکہ کو چشم پوشی کرنا پڑی کہ پاکستان کی مدد کے بغیر امریکہ اس پراکسی وار میں کامیاب نہ ہو سکتا تھا۔ ضیاءالحق نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایٹمی پروگرام تیز کر دیا۔ ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے بھی ایٹمی صلاحیت کے حصول پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا اور بالآخر پاکستان ایٹمی قوت بن گیا۔ لیکن اس کا ٹیسٹ اور اعلان ابھی باقی تھا۔ یہ موقع بھارت نے خود 1998 میں پانچ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو فراہم کر دیا۔ پاکستان کو بھی اپنے پتے شو کرنے کا موقع مل گیا۔ میاں نواز شریف اس وقت پاکستان کے وزیرِ اعظم تھے۔ پوری پاکستانی قوم ان کے ساتھ تھی۔ صدر بل کلنٹن نے میاں نواز شریف کو ترغیب اور تحریص کے ذریعے روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ 6 ارب ڈالر اس وقت معمولی رقم نہ تھی۔ برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر اور جاپانی وزیرِ اعظم موتو نے بھی ایٹمی دھماکے نہ کرنے کے لیے نواز شریف پر دباؤ ڈالا۔ دوسری طرف معاملہ پاکستان کی عزت، وقار اور خودمختاری کا تھا۔ پھر ٹائمنگ بھی بڑی اہم تھی۔ بھارت سے ایک اور حماقت یہ سرزد ہو گئی کہ ایٹمی دھماکے کرنے کے علاوہ وہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر اپنی فوجیں لے آیا جس سے جنگ کا حقیقی خطرہ پیدا ہو گیا۔ بھارتی وزیرِ داخلہ اور امورِ کشمیر کے انچارج ایل کے ایڈوانی نے بھارتی فوج کو یہ حکم دے دیا کہ وہ مجاہدین کے کیمپ تباہ کرنے کے لیے آزاد کشمیر میں داخل