معاشرتی امن کے لئے غنڈہ ایکٹ کی اھمیت

تحریر : محمد ندیم بھٹی،

6

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں امن و امان کے قیام، شہریوں کے جان و مال کے تحفظ اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کے لیے متعدد قوانین کا نفاذ عمل میں لایا گیا ھے، جن میں سے ایک اہم قانون “کنٹرول آف غنڈہ ایکٹ” ھے۔ یہ قانون اُن افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار دیتا ھے۔جو معاشرے میں خوف و ہراس پھیلانے، دھونس دھاندلی، بدمعاشی اور غنڈہ گردی میں ملوث ہوں، یا جن کے خلاف مسلسل شکایات ھوں مگر عام فوجداری قوانین کے تحت انہیں سزا دینا یا قابو پانا مشکل ھو۔ اس قانون کا مقصد نہ صرف شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ھے بلکہ پولیس کو ایسے افراد کے خلاف بروقت اور مؤثر کارروائی کی اجازت دینا بھی ھے جو معاشرے میں مستقل طور پر بدامنی کا باعث بنتے ہیں۔
کنٹرول آف غنڈہ ایکٹ بنیادی طور پر ایک احتیاطی قانون ھے
، جس کے ذریعے ایسے افراد کو، جن کا ماضی جرائم سے لبریز ہو، یا جن کے خلاف تھانوں میں درجنوں شکایات ھوں، انہیں کچھ مدت کے لیے ضلع بدر کیا جا سکتا ھے، یا انہیں نظر بند بھی کیا جا سکتا جے تاکہ وہ اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے کسی بھی قسم کی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث نہ ہو سکیں۔ یہ قانون 1959 میں متعارف کروایا گیا اور بعد ازاں اس میں وقتاً فوقتاً ترامیم بھی کی گئیں تاکہ اسے مؤثر بنایا جا سکے۔
پنجاب میں حالیہ برسوں میں اس قانون کے تحت کی جانے والی کارروائیوں میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ھے۔ لاہور، فیصل آباد، ملتان، گوجرانوالہ، راولپنڈی اور دیگر بڑے شہروں میں پولیس نے کنٹرول آف غنڈہ ایکٹ کے تحت ایسے سینکڑوں افراد کے خلاف کارروائی کی ھے ۔جو جرائم کی دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ یہ قانون بظاہر سادہ نظر آتا ھے، لیکن اس کے اطلاق کے لیے ٹھوس شواہد، انٹیلی جنس رپورٹس، اور متاثرہ شہریوں کی شکایات کی بنیاد پر ایک مکمل قانونی پراسیس طے کرنا ضروری ہوتا ھے۔
اس قانون کا استعمال اُن مخصوص حالات میں کیا جاتا ھے جب کسی شخص کی موجودگی سے علاقے میں خوف و ہراس پایا جاتا ھو، اور وہ لوگ جو پولیس کے لیے مسلسل چیلنج بنے رہتے ہیں۔ یہ قانون عام طور پر ایسے افراد کے لیے لاگو ہوتا ھے جو قتل، اقدام قتل، اغوا، بھتہ خوری، جوا، جسم فروشی، زمینوں پر قبضے، سود خوری، اور اسلحہ کی غیر قانونی نمائش میں ملوث ھوں یا ان پر شک ہو کہ وہ کسی گروہ یا گینگ کا حصہ ہیں۔
ضلع بدر کرنا ایک سخت اقدام ھے، جو شہری آزادیوں پر اثر انداز ہو سکتا ھے، اس لیے اس قانون کے اطلاق سے قبل ایک مکمل انکوائری، تحریری شواہد اور متعلقہ ایس پی، ڈی ایس پی یا ڈی پی او کی منظوری حاصل کرنا لازمی ہوتا ھے۔ عام طور پر یہ مقدمات ڈی سی آفس کو بھجوائے جاتے ہیں، جہاں متعلقہ مجسٹریٹ یا ڈپٹی کمشنر، رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد ضلع بدری یا نظربندی کے احکامات جاری کرتا ھے۔
کئی مواقع پر دیکھا گیا ہے کہ ایسے عناصر جن پر درجنوں مقدمات درج ھوں، وہ ضمانت پر رہا ھو کر دوبارہ وہی مجرمانہ سرگرمیاں شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے خلاف عمومی قوانین کے تحت کارروائی مؤثر ثابت نہیں ہوتی، اور نہ ہی شہادتیں فراہم کرنے والے افراد تیار ہوتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ ایسے لوگ دوبارہ خوف پھیلاتے ہیں، عوام کو دھمکاتے ہیں، اور قانون کی عملداری کو چیلنج کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں “کنٹرول آف غنڈہ ایکٹ” ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہوتا ھے۔
پنجاب پولیس کے بعض اضلاع میں اس قانون کے مثبت اثرات دیکھنے میں آئے ہیں۔ مثال کے طور پر، لاہور پولیس نے پچھلے دو سالوں میں درجنوں غنڈہ عناصر کو ضلع بدر کیا، جن کے باعث نہ صرف جرائم کی شرح میں کمی ہوئی بلکہ عوام کے اعتماد میں بھی اضافہ ھوا۔ اسی طرح فیصل آباد
،گوجرانوالہ اور ملتان میں بھی اس قانون کے ذریعے بدنام زمانہ افراد کو قانون کے دائرے میں لایا گیا۔
تاہم، اس قانون کے اطلاق پر کئی حلقوں کی جانب سے تنقید بھی سامنے آتی رہی ھے۔ بعض انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ہر شہری کو آزاد نقل و حرکت کا حق حاصل ھے اور کسی بھی شخص کو بغیر مقدمہ چلائے یا جرم ثابت کیے ضلع بدر کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ھے۔ ان کا مؤقف
ھے کہ اس قانون کو صرف اُس صورت میں استعمال کیا جائے جب تمام قانونی تقاضے مکمل کیے جا چکے ھوں اور عدالتوں کی منظوری حاصل ھو۔
اس قانون کا ایک پہلو یہ بھی ھے کہ بعض اوقات سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد، یا پولیس اہلکار خود، ذاتی رنجش یا دباؤ میں آ کر بھی اس قانون کا غلط استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسے کیسز بھی رپورٹ ہوئے ہیں جن میں معمولی نوعیت کے تنازعات پر فریقین میں سے کسی ایک کو غنڈہ قرار دے کر ضلع بدر کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہی وجہ ھے کہ اعلیٰ عدالتیں اور محکمہ داخلہ اکثر اوقات ایسے کیسز کا ازسر نو جائزہ لینے کی ہدایت جاری کرتے ہیں تاکہ شہریوں کے حقوق کا مکمل تحفظ کیا جا سکے۔
پولیس افسران کی یہ ذمہ داری ھے کہ وہ اس قانون کے استعمال میں نہ صرف احتیاط سے کام لیں بلکہ مکمل شفافیت کے ساتھ تمام شواہد اور شہادتیں اکٹھی کریں تاکہ عدالتوں میں اس اقدام کا دفاع کیا جا سکے۔ ہر ضلع میں قائم پولیس کمیٹیاں اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں اور انہیں پابند کیا جاتا ھے کہ وہ اس ایکٹ کے اطلاق سے قبل متاثرہ شخص کا مؤقف بھی سنیں۔
کنٹرول آف غنڈہ ایکٹ کے مثبت استعمال کی ایک روشن مثال یہ بھی ھے کہ کئی اضلاع میں جب کسی بدنام زمانہ شخص کو ضلع بدر کیا جاتا ھے تو مقامی سطح پر پولیس کو نہ صرف سکون میسر آتا ھے بلکہ عوام بھی کھل کر جرائم کے خلاف آواز اٹھانے لگتے ہیں۔ ان عناصر کی غیر موجودگی میں مقدمات کی پیروی بھی بہتر ہوتی ھے،

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.