ناگزیر عدالتی اصلاحات

ملک محمد سلمان

6

مریم نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب کی اپنی تحصیل رائیونڈ میں عدالتیں قائم نہیں ہوسکیں۔ روزانہ سینکڑوں سائلین اور سرکاری عملہ مختلف کیسز کی پیروی کیلئے پچاس کلومیٹر کا سفر طے کرکے ضلع کچہری لاہور آنے پر مجبور ہے۔رائیونڈ سمیت جن تحصیلوں میں ابھی تک عدالتیں قائم نہیں ہوئیں وہاں فی الفور نئی عدالتیں قائم کی جائیں۔
دنیا بھر میں ججز کیلئے سپیشل پروٹیکشن فورس ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں گنگا الٹی ہی بہتی ہے۔ سینئر پولیس افسران معزز ججز کی حفاظت کیلئے ان ٹرینڈ اور ناکارہ ٹائپ سپاہی بھیج دیتے ہیں اور اس میں بھی پی ایس پی افسران جان بوجھ کر ججز کو تنگ کرنے کیلئے کبھی یہ اہلکار لے لو یہ واپس کردو کی ردوبدل لگائے رکھتے ہیں۔
پچھلے دنوں ایک ڈی پی او نے ججز کو دیے گئے تمام اہلکار واپس بلا کر عدالتوں کے ساتھ ٹکرائو کا ماحول بنانے کی کوشش کی جسے سینئر افسران نے دانش مندی سے روک دیا۔
میڈم وزیراعلیٰ، پنجاب کی ڈسٹرکٹ جوڈیشری آپ سے امید لگائے بیٹھی ہے کہ آپ انہیں پولیس کے ناکارہ سپاہیوں سے نجات دلا کر ججز کی حفاظت کیلئے ایس ایس جی کمانڈوز سے تربیت یافتہ باقاعدہ جوڈیشل پروٹیکشن فورس فراہم کریں جبکہ اہم مقدمات کی پروسیڈنگ کرنے والے جسٹس صاحبان کیلئے بلٹ پروف گاڑیاں فراہم کی جائیں تا کہ معزز ججز بلا خوف و خطر مقدمات کے فیصلے کرسکیں۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی طرح سول ججز کی تنخواہوں میں بھی اضافہ ہونا چاہئے، اچھی گاڑیاں اور باعزت سرکاری رہائش فراہم کرنی چاہئے۔ عدالتی اصلاحات کی بات کی جائے تو عدالتی نظام اپنی سست رفتار کی وجہ سے بد اعتمادی کا شکار ہے، مقدمات کو حل ہونے میں سالوں یا دہائیوں کا وقت لگتا ہے۔عدالتی سست روی کی اصل وجہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ ہیں جو عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کرواتے۔ درجنوں عدالتی احکامات کے باوجود اسسٹنٹ کمشنر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو اور پولیس کسی غریب کا حق دلوانے کیلئے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ تمام ریونیو پاورز پر قابض ہونے کی وجہ سے بیوروکریسی کے گریڈ اٹھارہ کے ڈپٹی کمشنر فارچونر جبکہ اسسٹنٹ کمشنرز حتی کہ گریڈ سولہ کا تحصیل دار بھی کروڑوں روپے کے ویگو ڈالوں میں فراٹے بھر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح پولیس میں بھی جہاں آئی جی اور سی سی پی او بلٹ پروف لینڈ کروزر سمیت درجنوں گاڑیوں کا قافلہ ساتھ رکھتے ہیں وہیں پر گریڈ انیس کا ڈی آئی جی آپریشن پندرہ کروڑ سے زائد کی بیش قیمت V8 سمیت متعدد گاڑیاں لیے پھرتا ہے جبکہ اس کے مقابل گریڈ انیس کا ہی سنئیر سول جج مینول کلٹس میں بغیر کسی سکیورٹی کے گزارا کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح گریڈ 16 کا تحصیلدار اور گریڈ 17کا ڈی ایس پی 4×4ویگو ڈالے پر دھول اڑاتا گریڈ بائیس کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی مینول کورولا جی ایل آئی کو فل سپیڈ سے اوورٹیک کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ عدلیہ لاوارث ہے۔ ججز کیلئے سرکاری رہائش گاہیں بھی ناکافی ہیں اس لیے ججز کی اکثریت کرائے کے گھروں میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں ۔المیہ دیکھیں کہ لاہور کے 260سے زائد ججز کیلئے رہائش گاہیں ناکافی ہیں جبکہ بیوروکریسی کے افسران کیلئے شاہانہ رہائشیں اور نوکر چاکر موجود ہیں۔ انہیں حالات کو دیکھتے ہوئے درجنوں سول ججز نے جوڈیشری کو خیرباد کہہ کہ سول سروس کو ترجیح دی یا پھر ایسی ذلت سے وکالت کے طرف واپس لوٹ گئے۔
اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی بھرتی پر اس وقت کافی بحث مباحثہ ہو رہا ہے۔ ہر گروہ کا مقصد یہ ہے کہ ہائی کورٹ میں جج بھرتی کرنے کا سارا اختیار اسے مل جائے۔ اصل میرٹ تو مقابلے کا امتحان ہوتا ہے۔ آرمی اور سول بیوروکریسی سمیت تمام اداروں میں بھرتیاں سخت مقابلے کے امتحان سے گزار کر کی جاتی ہیں۔ عدلیہ میں میرٹ کا تنازع اس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک جج صاحبا ن مقابلے کے امتحانوں کے ذریعے بھرتی نہیں کئے جائیں گے۔ سول اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بھرتی ہونے والے جج صاحبان میں سے سینیارٹی کی بنیاد پر ہی ہائی کورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ میں جانے چاہئیں۔ جس طرح کوئی ڈائریکٹ چیف سیکرٹری، آئی جی یا چیف آف آرمی سٹاف نہیں بن سکتا اسی طرح ڈائریکٹ ہائی کورٹ کا جسٹس بھی نہیں بنانا چاہئے۔ سابق ادوار حکومت میں اعلیٰ عدلیہ میں جج صاحبان کی بھرتیاں جس طرح ہوئیں اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگالیں کہ 2018میں سیاسی جماعت کے نشان پر ایم پی اے کا الیکشن لڑنے والے شخص کو چند ماہ بعد ہائی کورٹ کا جج نامزد کردیا گیا۔ اب بھی ایسے ہی کچھ فیصلے ہو جائیں گے۔ ایسے فیصلوں سے سیاسی افراد اور جماعتوں کا فائدہ ہے لیکن عام بندے کیلئے انصاف کی امید دم توڑ دیتی ہے۔ کسی تگڑے وکیل کے چیمبر اور سیاسی جماعت کی طرف سے نامزد ہونے والا جج میرٹ اور انصاف پر مبنی فیصلے کرے گا؟ یہ محض دیوانے کا خواب ہی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف، وفاقی کابینہ، اراکین سینٹ و قومی اسمبلی اور چیف جسٹس آف پاکستان سے گزارش ہے کہ ڈائریکٹ ہائی کورٹ کے ججز بھرتی کا راستہ بند کرکے میرٹ پر ججز کو آگے لانے کا تاریخی فیصلہ کرکے امر ہوجائیں، اپنی ذات کی بجائے ملکی مفاد کا سوچیں ، انصاف کا ترازو اس بات کا متقاضی ہے کہ سینئر سول جج اور ایڈیشنل سیش جج بننے والے منصفوں کو ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.