“کیا سناؤں ہی سفر نامہ تجھے” ڈاکٹر یونس خیال کا خوبصورت سفرنامہ:

تحریر :- فیصل زمان چشتی

5

قدرت جب کسی کو تخلیقی جواہر سے مرصع کرتی ہے تو اس کو کامل تخلیق کار کے درجہ
پر فائز کرتی ہے۔ اس کا ہر کام اور ہر انداز نئے امکانات ، نئے راستوں اور نئے زاویوں سے مزین ہوتا ہے ۔ فنونِ لطیفہ میں وہ کسی بھی صنف کا انتخاب کرے اس کی صلاحیتیں قابل رشک اور قابل دید ہوتی ہیں بالکل اسی طرح ڈاکٹر یونس خیال بھی ایک حقیقی اور جینوٸن تخلیق کار ہیں جن کو قدرت نے بہترین تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال کر کے بھیجا ہے انہوں نے جو بھی لکھا اور جس صنف میں بھی لکھا باکمال، بے مثال اور لاجواب لکھا۔ ان کی شاعری دیکھیں تو ان کا ایک ایک شعر دل کے نہاں خانوں میں صرف جھانکتا ہی نہیں بلکہ اُترتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ تحقیق و تنقید کی طرف آئے تو ایسے ایسے نقاط اُٹھائے کہ بڑے بڑے صاحبان ادب کو ان کی تنقیدی بصیرت کا معترف ہونا پڑا اور سفر نامہ لکھا ہے تو قاری پر ان کی قلم کی روانی ، سلاست اور شائستگی و شگفتگی کے کئی در وا ہوئے ہیں۔ اتنی خوبصورتی سے احوال قلمبند کیے ہیں کہ جیسے ہم اس سفر میں ان کے ہمرکاب ہیں ۔ دل سے دل کی باتیں لکھی ہیں ۔ بے لوث محبتوں اور شاندار رفاقتوں کے احوال دلوں کے تار چھیڑ رہے ہیں۔
سفر نامه ایسی صنف ادب ہے جس میں سفر نامہ نگار دیار غیر میں پیش آنے والے حالات و واقعات، مشاہدات اور تجربات سے قاری کو اس
طرح آگاہ کرتا ہے، اتنی دلچسپی پیدا کر دیتا ہے اور اس انداز سے بیان کرتا ھے کہ قاری کے اندر بھی وہاں پر جانے اور دیکھنے کا جذبہ بیدار ہو جاتا تھے ۔ سفر نامہ نگار داستانوی انداز بھی اپناتا ہے ، منظر کشی کرتا ہے اپنی کہانی، لوگوں کی کہانیاں اور واقعات اس طرح مزے لے لے کر
پیش کرتا ہے کہ قاری کا انہماک اور دلچسپی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بالکل اسی طرح ڈاکٹر یونس خیال نے بھی برطانیہ میں اپنے بیتے بیس دنوں کے احوال اور واقعات کی تفصیل اتنی خوبصورتی اور شگفتگی کے ساتھ لکھی ھے کہ
اس کو شروع کر لیں تو ختم کے بغیر دل نہیں چاہتا۔ جزیات نگاری اور منظر نگاری میں انھوں نے کمال کر دیا ہے۔ تاثرات اور جذبات اس طرح لکھے ہیں لگتا ہے کہ ٹی ۔ وی کی سکرین چل رہی ہے۔ پورے سفر نامے میں انھوں نے قاری کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں رکھا ہے اور یہی ان کی کا میابی کی دلیل ہے۔
ڈاکٹر یونس خیال کے بیان کے مطابق کچھ دوستوں کا اصرار، بیٹے اور بھائی سے ملنے کا خیال اس سفر کا محرک بنا ۔ یہ بات بھی خوشی کا باعث تھی کہ یہ سفر انہوں نے اپنی فیملی کے ساتھ کیا اور راستے میں کسی بھی رومانس کا ارتکاب نہ کیا اور نہ ہونے دیا گیا جیسا کہ کچھ سفر نامہ نگار کرتے ہیں جن سے ہر جگہ پر نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والی حسینہ ٹکرا جاتی ہے۔ ڈاکٹر یونسی خیال نے اس سفر کی روداد انتہائی خوبصورتی اور حقائق پر مبنی لکھی ہے جس سے اس کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ کچھ مواقع پر نظر بچا انھوں نے دل پشوری کرنے کی جو کوشش کی اس کا اپنا ہی مزا آیا اور بعض مواقع پران کی خوش گمانیاں بھی قابل دید تھیں ۔ سفر کے دوران ہوائی میزبانوں کی مکمل میزبانی سے محروم رہے جوس اور پھیکی چائے پیتے ہوئے ان کی بے بسی پر ترس آرہا تھا۔ شاعر تھے سو مرزا غالب کے اشعار پر گزارا کر گئے ۔
انسان کہیں بھی پہنچ جائے لیکن جس جگہ پر بچپن اور جوانی کے دن گزرے ہوں وہ کبھی نہیں بھولتے ڈاکٹر صاحب کے دل میں سرگودھا کی محبت خون بن کر رگوں میں دوڑ رہی ھے جس کا ثبوت انھوں نے ولایت جاکر بھی دیا اور وہاں بھی سرگودھا، اس کی مٹی کی خوشبو، اس کی یادوں کی مہک اور پرانے دوستوں کی محبت ان کے ساتھ ساتھ چلتی رہی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ڈاکٹر صاحب کی خوش قسمتی رہی کہ وہ برطانیہ میں فلسطین کے حق میں کیے گئے مظاہروں میں شریک ہوئے اور فلسطین کاز میں اپنا حصہ ڈالا ورنہ یہاں تو ایسا کام کرنے ہی نہیں دیا گیا اور جنھوں نے کیا ان کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی یلغار اور اس کے معاشرے پر اثرات کے حوالے سے ان کا یہ شعر بہت پسند آیا اور بار بار پڑھا۔ آپ بھی پڑھیے۔
.
گوگل مرے سماج کی دانش کو کھا گیا
بچہ سا لگ رہا ہوں میں بچوں کے درمیاں

چھوٹا منہ بڑی بات والی صورتحال ہے کہ ڈاکٹر یونس خیال جیسی بلند پایہ اور جید علمی و ادبی شخصیت کی تخلیق پر کچھ عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں مگر ایک طالب علم کی حیثیت سے جو میں نے پڑھ کر محسوس کیا اس کو قرطاس پر منتقل کرکے آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔
ڈاکٹر یونس خیال ایک خوبصورت مثبت اور متوازن شخصیت کے مالک ہیں۔ اپنی علمی و ادبی خدمات اور مثبت اپروچ کے باعث علمی و ادبی حلقوں میں نہایت عزت و تکریم سے دیکھے جاتے ہیں یہ عہد حاضر کے سینٸر ترین شعراء و ادباء میں شامل ہیں۔ یہ بات ادب کی ترویج و ترقی میں معاون ہے کہ یہ جونیئرز کو جگہ اور سپیس دینے کے قائل ہیں ۔ انھوں نے کبھی بھی جونیئرز کے ساتھ لا پرواہی، بے اعتنائی اور بے رخی نہیں برتی بلکہ ان کی راہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ادب کے ارتقائی سفر اور مراحل کے لیے سینئرز کے ایسے رویے نہایت اہمیت کی حامل ہوتے ہیں۔
ولیم ورڈزورتھ کے ساتھ ان کا مکالمہ اس کتاب کا اہم ترین باب ہے جس میں ایک مشرق کے شاعر کا ایک مغرب کے شاعر کے ساتھ ملاقات ، مکالمہ اور بات چیت ہے اگرچہ درمیانی فاصلہ تقریباً اڑھائی سو برسکا
ہے مگر جہاں دل کے معاملات ہوں وہاں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.