منوبھائی کی سندس

جمع تفریق۔۔۔ ناصر نقوی

6

دنیا صحافت ثقافت اور ادب ہی میں نہیں سیاست اور خلق خدا کی بھلائی میں بھی منو بھائی اپنا ایک منفرد اور قابل احترام مقام رکھتے تھے اور ساتھ سال پہلے حکم خداوندی میں اس دیار فانی سے رخصت ہو گئے اس لیے کہ قدرت نے زندگی جیسا حسین تحفہ دیا ہی موت کی قیمت پر ہے کبھی ہم بہت امیر تھے کہ ہمارے تمام بڑے ہمارے سروں پر موجود تھے لیکن دونوں بھائی کی طرح سب کے سب اپنی اپنی باری پر روتا چھوڑ کر چلے گئے اور اب ہم بڑے ہیں اس کا مطلب سیدھا سادہ ہے کہ وقت راہ میں بھی اپنے مالک حقیقی کی جانب واپس لوٹنا ہے یہ الگ بات ہے کہ زندگی کی کہانی کا انجام جانتے بوجھتے بھی  بہت سے ایسے دنیا میں موجود ہیں جو دنیا کی رنگینیوں کو اپنا حق سمجھتے ہیں انہیں کسی کی فکر نہیں، نہ ہی  ،،دربار رب العزت،، میں جانا یاد ہے، اسی لیے وہ سرمست ہاتھی کی طرح تمام تر نعمتوں اور رحمتوں کو اپنے لیے مالک حقیقی کی عطا جان کر واپسی بھولے بیٹھے ہیں انہیں پتہ ہے کہ زندگی،، اذان اور نماز جنازہ کے درمیان کا ایک ایسا وقفہ ہے،، جس کا اصل وقت کسی کیلنڈر یا پیمانے سے معلوم نہیں کیا جا سکتا پھر بھی انہیں نہ کسی کی فکر اور نہ ہی کسی کا ڈر خوف جائز ناجائز سب کچھ ان کا، روز محشر سے بھی واقف ہیں، علماء و مشائخ کے واعظ بھی سنتے ہیں نماز کی ادائیگی بھی کرنا فرض سمجھتے ہیں لیکن ان میں سے،، میں، انا اور خواہشات کی غلامی نہیں نکلتی کیونکہ انہیں خلق خدا سے زیادہ اپنی اور اپنے پیاروں کی فکر لاحق ہے، اولاد نرینہ کی تمنا کرتے ہیں اور پھر  آخری وقت تک انہی کی پیدا کردہ مشکلات میں جکڑے رہتے ہیں لیکن جو لوگ زندگی کی نعمت کو عارضی سمجھتے ہوئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتے ہوئے ایسے کارنامے انجام دیتے ہیں جو دوسروں کی  آ سانی کا باعث بنیں، انہیں اس عارضی دنیا سے رخصتی کے بعد بھی ہمیشہ مثبت انداز میں یاد رکھا جاتا ہے ایسی ہزاروں، لاکھوں مثالیں ھیں کہ،، ارب پتی،، خاک میں مل کر خاک ہو گئے لیکن مثبت سوچوں  کے وارث اپنے سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھنے والے ،،بوریا نشین،،  مٹی تلے جا کر بھی زندہ جاوید رہے بلکہ ہمیشہ رہیں گے، ایسے ہی لوگوں میں چھری ،چاقو، کانٹوں سے شہرت یافتہ شہر وزیر آ باد میں جنم لینے والے منیر احمد قریشی المعروف منو بھائی ہیں، ان کا شمار میرے  ہمعصرو ں میں ہرگز نہیں لیکن ہم وہ خوش قسمت ہیں جنہیں ان کا دیدار ھی نہیں بلکہ ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع بھی ملا، بحیثیت انسان یقینا ان سے اتفاق اور اختلاف کیا جا سکتا ہے اس مٹی کے پتلے سے غلطی کوتاہی بھی ہوئی ھو گی لیکن منو بھائی کی صحافتی، ثقافتی، ادبی اور انسانیت کی خدمات کو دیکھتے اور پرکھتے منہ سے دعا ضرور نکلتی ہے کہ اللہ ان کی نہ صرف مغفرت اور درجات بلند کرے بلکہ جوار رحمت میں جگہ دے، وہ خود تو چھری چاقو والے ہرگز نہیں تھے پھر بھی ان کا قلم کسی تلوار سے کم نہ تھا اسی لیے ایک ترقی پسندانہ سوچ کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں بھی انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکا ،میں ریڈیو پاکستان سے لائیو پروگرام کرتا ہوں کبھی میرے اس پروگرام میں منو بھائی اور ڈاکٹر حسن عسکری (سابق نگران وزیراعلی پنجاب )عالمی تجزیہ کار شمولیت کیا کرتے تھے اگر  آ پ قہقہہ نہ لگائیں اور تمسخر نہ اڑائیں تو میں معاوضہ بھی بتا دیتا ہوں ،،مبلغ ایک ہزار جس کا نصف 500 ہوتا ہے سکہ راج الوقت، ہم تینوں کو فی کس ملا کرتا تھا لیکن ہم تینوں انتہائی ذمہ داری سے ایک اعزاز سمجھ کر برسوں یہ پروگرام کرتے رہے، پھر اچانک محترمہ ثمینہ پرویز ڈی ۔جی۔ ریڈیو پاکستان تعینات ہو گئیں، ان سے ملاقات ہوئی تو پرانی شناسائی کے باعث انہوں نے کہا ،، آ پ میرے لائق کوئی کام بتائیں؟ میں نے درخواست کی کہ کیا  آ پ سمجھتی ہیں کہ ایک گھنٹے دورانیہ کے،، حالات حاضرہ،، کا پروگرام منو بھائی ، حسن عسکری اور میں ایک ہزار کے لیے کرتے ہیں؟  آ پ نہیں جانتیں کہ منو بھائی ہر پروگرام پر ہزار ،دو ھزاریہاں روزی کی تلاش میں  آ نے والے جز وقتی  آ رٹسٹوں کو بانٹ جاتے ہیں اس لیے کہ وہ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ سرکاری ریڈیو، ٹی وی پر اب حالات اور پالیسیوں کے باعث کام ہی نہیں ہو رہا، محترمہ نے وعدہ کیا اور آ ئندہ ہفتے مجھے اسلام  آ باد سے فون کر کے دریافت کیا کہ  آ پ کتنا معاوضہ درست سمجھتے ہیں ؟میں نے کہا ,,کم از کم پانچ ہزار تو کیا جائے,, وعدہ نبھانے کی یقین دہانی کرائی اور فون بند کر دیا تقریبا 15 روز بعد مجھے فون کر کے اطلاع دی کہ,, بورڈ  آ ف ڈائریکٹرز،، کی میٹنگ میں میری کوشش کے باوجود پانچ ہزار کی منظوری نہیں ہو سکی البتہ تین ہزار معاوضہ کر دیا گیا ہے برسوں بعد ایسی خبر ملی تو ہم اور ساتھی بہت خوش ہوئے لیکن خبر یہ ہے کہ اب برسوں بعد اضافے کی بجائے اس میں پھر کمی کر دی گئی ہے اب منو بھائی تو رخصت ہو چکے ہیں اور حسن عسکری صاحب بھی مصروفیت کے باعث نہیں  آ تے لیکن ہم اپنے 45 سالہ عشق ریڈیو اور مملکت سے کمٹمنٹ نبھا رہے ہیں

   بات کہیں سے کہیں نکل گئی لیکن  آ گاہی کے لیے ایسی باتیں بھی ضروری ہوتی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں تو تضاد بیانی ،جھوٹ کا چرچا ہے کوئی حقیقت بتانے کو تیار نہیں، منو بھائی کا جذبہ خدمت خلق کی بہترین مثال ،،سندس فاؤنڈیشن،، جو بد قسمتی اور لاپرواہی سے تھلسمیا جیسی موروثی بیماری میں مبتلا خاندانی بیماریوں سے نمرد  آ زما ہے، وہ ایسے بچوں کی نگہداشت اور سہولت کاری سے انہیں نہ صرف زندگی دینے کی کوشش کرتی ھے اور انھیں معاشرے کا کار آ مد شہری بنانے کی جدوجہد میں شب و روز مصروف ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.