مفاہمت کی سیاست کے دور رس نتائج

11

۔انسان ۔۔۔۔احسان ناز

حکومت نے اب تک جتنے بھی مقدمات بانی پی ٹی ائی پر قائم کیے وہ ریت کی دیوار کی طرح عدالتوں میں گر گئے اور ان کو ختم کرنا پڑا اس وقت تک بانی پی ٹی ائی کے خلاف جو مقدمات سپریم کورٹ ، ہائیکورٹ اور سیشن کورٹ میں سنے جا رہے ہیں ان تمام مقدمات کو قائم کرنے والوں کی طرف سے کوئی ٹھوس ثبوت عدالتوں کو نہیں دیے جارہے جس کی بنیاد پر عدالتیں مجبور ہیں کہ وہ مقدمے کو ختم کریں اور اس پر دی جانے والی سزا کو اڑا کر رکھ دیا جائے ۔دوسری طرف حکمران اپنی طرف سے قائم کردہ بانی پی ٹی ائی پر مقدمات میں یہ توقع کرتے ہیں کہ انہیں سخت سے سخت سزا ملے۔ اب جس طرح آٹھ ستمبر کے جلسہ کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے جن اکابرین پر مقدمات درج کیے گئے اور تھانوں میں اور جیلوں میں رکھا گیا لیکن جب وہ عدالتوں میں پہنچے اور عدالت نے انہیں یا ان کے وکلاء کو سنا تو وہ بھی جس طرح بانی پی ٹی آئی پر مقدمات بنائے گئے تھے اسی طرح کا ایک “ایپیسوڈ” ثابت ہوا جس پر عدالت نے بہتر کام یہ کیا کہ ریمانڈ بھی معطل کر دیا اور سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ان تمام پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی کےپروڈکشن آرڈر جاری کرتے ہوئے انہیں اسمبلی میں بلایا اور سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو یہ کہنا پڑا کہ میں دیکھتا ہوں کہ مجھے اب سپیکر قومی سمبلی رہنا ہے یا نہیں، یہ الفاظ سپیکر قومی اسمبلی کے اپنے آپ کو کتنا بے بس ظاہر کر رہے ہیں۔اس دوران انہوں نے میثاق پارلیمنٹ کی تجویز بھی دی اور جمہوری اقدار کی بات کرتے ہوئے تاریخ بنادی ۔سپیکر نے یہ بھی کہا کہ انہیں قومی اسمبلی کی سپیکر شپ چھوڑنا پڑے گی کیونکہ جو جو مجھے بطور سپیکر قومی اسمبلی اختیارات ہیں ان میں دیگر ادارے مداخلت کر کے مجھے بے بس کر رہے ہیں یہاں یہ بات قابل ذکر ہے پاکستان کے جو بھی قوانین ہیں ان کے مطابق کسی بھی رکن قومی اسمبلی کو سپیکر قومی اسمبلی کی اجاز ت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا لیکن آٹھ ستمبر کی رات کو جلسہ سات بجے ختم نہ کرنے پر قومی اسمبلی کے 10 ارکان 10 ستمبر کو اسمبلی کے احاطہ سے گرفتار کر لئے گئے جب اس بارے میں مسلم لیگ نون کے اسلام آباد سے ایم ایل نے ڈاکٹر فضل چوہدری سے پوچھا گیا کہ کیا یہ گرفتاری سپیکر ایاز صادق کے علم میں ہے تو انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں جواب دیا جی گرفتاری کا علم سپیکر قومی اسمبلی کو ہے جبکہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے برملا اس کا اظہار کیاتو میں کہنے میں حق بجانب ہوں کہ حکومت کو چاہے تحریک انصاف کی ہو مسلم لیگ ن کی یا پاکستان پیپلز پارٹی کی ان تینوں حکومتوں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے سپیکر کے منصب کو استعمال کیا ہے اور وقت کے سپیکر قومی اسمبلی نے اپنے اپ کو بے بس ظاہر کیا یہ جو معاملہ اس وقت قومی اسمبلی میں زیر بحث ہے اور ممبران پاکستان تحریک انصاف جن کو پروڈکشن آرڈر کے ذریعے اسمبلی کے احاطے میں پولیس کی نگرانی میں لایا گیا ہے اور انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کر کے اپنے آپ پر ہونے والے ظلم کی داستانیں جس انداز میں سنائی ہیں اور اسلام اباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے جس انداز سے کاٹی جانے والی ایف ائی ار کو لطیفے اور کہانیاں قرار دیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے جب حکومت کے پاس اپوزیش کو دبانے کے لیے کوئی چارہ نہ رہے تو وہ بے پر کی ایف آئی آرز درج کرتی ہیں اور ان ایف ائی آرز کے ذریعے اپنا منہ کالا کرنے کے علاوہ ان کو کچھ نہیں ملتا اب دیکھیے جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں چوھدری ظہور الٰہی پرچوری کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا اب سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر جو کہ حلف دے چکے ہیں کہ میں نے زندگی میں کبھی گاڑی نہیں چلائی لیکن ایف ائی آر درج کرنے والوں کا کمال ہے کہ انہوں نے اسد قیصرکو گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے پولیس والوں کو مارنے کی کوشش کرتے دکھایا ہے وہی کہانی ہے جو کہ ضیا ءالحق کے بیٹے اعجاز الحق پر بھی کلاشنکوف کامقدمہ ڈال دیا گیا تھا اور شیخ رشید کو بھی کلاشنکوف رکھنے پر پیپلز پارٹی کے دور میں پابند سلاسل بہاولپور جیل میں کیا گیا تھا جبکہ شیخ رشید کو یہ سزا محترمہ بے نظیر بھٹو کو قومی اسمبلی میں ییلو رنگ کے کپڑے پہن کر آنے پر ییلو کیپ کہہ کر مخاطب کرنے پردرج کیا گیا تھا اس طرح پیپلز پارٹی کے دور میں اتنے مقدمات درج کیے گئے کہ پھر انہیں کوئی اور جرم تو نہ ملا تو یہی کلاشنکوف رکھنے کا مقدمہ درج کر دیا گیا اب دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ تحریک انصاف جو کہ دو سال سے اسلام اباد میں جلسہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی ان کو آٹھ ستمبر کو جلسہ کرنے کی اجازت ملی۔ اس جلسے میں پاکستان تحریک انصاف کے چاروں صوبوں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے شرکت کرنے والوں میں سے کچھ شامل بھی ہو گئے لیکن زیادہ تر چاروں صوبوں کی سڑکوں پر اس لیے گھومتے رہے کہ حکومت پنجاب نے جلسہ گاہ کی طرف جانے والے سارے راستے کنٹینر لگا کر بند کر دیے تھے یہ اقدام بھی حکومت کا سراسر غلطی پر مبنی تھا اگر آپ نے پاکستان تحریک انصاف کو جلسے کے اجازت دی ہے تو پھر ان کو آنے دیں لیکن نہ جانے حکومت پنجاب کیوں گھبرا رہی تھی کہ اگر جلسہ کامیاب ہو گیا تو کیا ہماری حکومت گر جائے گی میں نے اپنے 50 سالہ صحافتی دور میں دیکھا ہےکہ جلسوں اور جلوسوں کی بنیاد پر کبھی بھی کوئی حکومت نہیں گئی، نواز شریف حکومت کے خلاف تحریک انصاف نے 134 دن کے دھرنے میں کسی قسم کا کوئی اثر نہیں ڈالا تھا وہ تو اے پی ایس

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.