طاغوت… ’’طابق النعل بالنعل‘‘
رخسانہ رخشی
پاکستانی معاشرہ جن دنوں طاغوتی اور طاماتی سے گھتم گھتا تھا نا تو انہیں دنوں برطانوی انتخابات کا زور وشور تھا ایک طاماتی نے قوم کو طاغوتی لفظ کے ابہام میں پھنسا کر تنائو کی کیفیت سے دوچار کر دیا تھا اور قوم کی بیٹیاں طاغوتی اور جہل کے طنز پر پیچ و تاب کھا رہی تھیں دوسری طرف برطانیہ بھر میں ووٹنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ 14سال کے بعد ایک طویل اقتدار نئی جیتنے والی جماعت کو منتقل کیا جا رہا تھا اور عوام کے منہ سے جیت کا بے ہنگم سا شور اور جذباتی سا نعرہ بھی نہ تھا کہ ہم جو ایسے ہنگامی حالات کے عادی ہیں کہ معمولی سی معاشرتی چھیڑ چھاڑ پر دنوں، ہفتوں اور مہینوں بحث و تکرارمیں ضائع کر دیتے ہیں اور اگر انتخابات کے دن آجائیں تو سیاستدانوں سےزیادہ عوام سیاستدان بن جاتے ہیںور اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کا دفاع اپنے ابا کی سیاسی پارٹی سمجھ کر کرتے ہیں ۔ یہ کمزوریاں ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونے نہیں دیتی تبھی تو طرے خان کی ذن پر طعنہ زنی انہیں آپس میں مقابلے بازی پر لے گئی۔ ایک لفظ ’’ط‘‘ سے طاغوت نے کئی خواتین کو ایک دم سے تعلیم یافتہ کر دیا پہلے تو نوے فیصد جاہل تھیں طعنہ سن کر 150 فیصد تو اپنا دماغ لڑا بیٹھیں یہ طعنہ ان کے دماغ میں ٹھک کرکے بجا جیسے سوئے ہوئے دماغ کے تابوت میں کیل ٹھونک دی جائے تو وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے۔ایک صوفی کی مبالغہ آمیزی کہ ’’95 فیصد خواتین جاہل ہیں‘‘ ۔ بس عورات کو یہ طعنہ یا شیخی بہت ہی بری لگی اس لئے کہ ایک دم سے بات خاتون کے منہ پر ماری گئی۔ بر سبیل تذکرہ اگر آرام سے یہ بات سمجھا دی جاتی تو اتنا برا نہ مانا جاتا۔ پھر خاتون نے بھی فوراً سے پہلے ہار نہیں مانی اور ایک طاماتی دانشور کو معافی مانگنے پر مجبور کیا۔ ادھر سے بھی ایک وار ادھر سے بھی ایک وار! جب دو لوگ مقابلے بازی میں برابر آجائیں ، جیسے سیاستدان بحث و تکرار میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں برابر آجائیں تو ایک مثال عین مطابق دی جاتی ہے ۔ وہ ی ہے کہ ’’طابق النعل بالنعل‘‘۔ یہ مثال صرف کسی ایک واقعے پر پوری طرح صادق نہیں آتی بلکہ ہمارے معاشرے کے ہر معاملے اور واقعاتی بحث و تکرار پر پوری اترتی ہے، بھلے کیسی بھی تکرار ہو۔ویسے اگر عورات کی شرح خواندگی 51.9فیصد ہے تو مردوں کی 73.4فیصد ہے پورے ملک میں شرح خواندگی کی حالت زار 62.8فیصد ہے یہ کوئی بہت بری صورتحال بھی نہیں ہے۔ تو پھر ہمارے طاماتی صوفی نے 95 فیصد کی مبالغہ آرائی کیوںکی؟ اس مبالغہ آمیزی کی بنا پر اسپیکر کو خواتین اور کچھ عوام نے طاماتی کا نام دیدیا جس کا مطلب بھی شیخی خورہ، مبالغہ آمیز صوفی ہے کیونکہ جاہلیت کے خطاب کیساتھ طاغوت کا لب لباب بھی پیش کیا گیا۔ اب اس لفظ طاغوت نے ایسا اثر کیا کہ بہت سے لوگوں پر کہ ہر کسی نے اپنے اپنے طور پر اس کا ترجمہ و تشریح پیش کر دی ۔ویسے طاغوتی سے لفظ طاغی بھی نکلا ہے جس کے معنی سرکش، باغی، حد سے گزرنے والا اور فساد پھیلانے والا کے ہیں۔ اس لفظ طاغوتی نے ’’ط‘‘ کے الفاظ سے طاق بھر دیا۔ مقابلے کی ایسی فضا قائم ہوئی کہ ہر کوئی اپنی اپنی ٹیم کیساتھ ہو گیا کوئی خواتین کو شاباش دینے لگا اور کوئی جاہل کہنے والے استاد کیساتھ ہوگیا۔ ویسے جاہلیت کا طعنہ دینے والوں کو ’’طاعن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی استاد نے دو لفظ استعمال کئے جاہل اور طاغوت تو جواب میں انہیں طاماتی، طاعن سننا پڑا بہت سی جلی کٹی باتوں کیساتھ۔ ہمارے یہاں ہر چہرہ رعونت سے بھرا اور لہجہ کرخت کیوں ہے۔ بات کیسی بھی کی جائے کسی کو اشتعال دلانے کے انداز میں نہیں بات چاہے کوئی بھی اسکالر اور کسی بھی مذہب کا پیروکار کرے مگر بات میں نرمی نہ ہو تو پھر حالات طابق النعل بالنعل کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ تو بات پھر وہیں مہذب معاشروں کی جانب مڑ جاتی ہے کہ جہاں ہمارے معاشرے میں ایک ہی بات کا متنازعہ ہو کر بتنگڑ بن جانا اس بات کی علامت ہے کہ ہم تہذیب سے بھی تک دور ہیں۔ گریٹ برطانیہ میں بھانت بھانت کی قومیں بستی ہیں تو اسی لحاظ سے شور کرنے والے بھی مختلف انداز میں شور مچا سکتے ہیں۔ مگر یہاں کی تہذیب دیکھتے ہوئے کوئی بھی شور مچانے کی جرأت نہیں رکھتا ۔ جمعرات کو ہوئے برطانوی انتخابات نے ثابت کر دیا حالانکہ ایک بڑی جماعت طویل اقتدار میں رہنے کے بعد ہار گئی مگر دوسری نئے اقتدار میں آنے والی جماعت نے ایک جملہ تک نہ کسا۔ اشتعال انگیز نعرے اور جیت کے ڈنکے بجنا تو دور کی بات ہے ۔ دوسری بات ووٹ اکائونٹ کرنے کی باری آئی تو نہایت پرامن طریقے سے یہ کام بھی چہرے پر مسکراہٹ سجا کر انجام دیا گیا۔ تو اندازہ کیجئے کہ معمولی نوک جھونک سے ہمارے یہاں بڑے بڑے مسائل بن جاتے ہیں اور قوم بھی اس تنقید و تعریف میںاپنے تمام کام چھوڑ کر شامل ہو جاتی ہے۔ ہمارے دانشوروں کو خواتین پر تنقید نہیں کرنا چاہئے ، خواتین تو زندگی میں رنگ بھرتی ہیں اپنی عزت و آبرو ، پاکدامنی اور شائستگی کی وجہ سے۔