لبھدا پھریں گا مٹی دیاں ٹھریاں

35

ن و القلم ۔۔۔مدثر قدیر

بیس جون 2011کو صبح 10بجے میں میو ہسپتال کی اے وی ایچ وارڈ کے وی آئی پی روم میں پہنچا تو خواجہ پرویز چائے کا کپ پی رہے تھے ساتھ ہی ان کے خاندان کے لوگ موجود تھے انھوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اپنے پوتے سے کہنے لگے مدثر کا خیال رکھنا ہے یہ جب بھی آئے تو اس کو چائے اور کھانے کا ضرور پوچھنا ، اس کے بعد ان سے میری باتیں شروع ہوئیں اور ایک گھنٹہ وہاں رہنے کے بعد میں واپس گھر آگیا ان دنوں میں نے اپنا اآپریشن کرورکھا تھا اور گزشتہ روز جناح ہسپتال سے واپس گھر آیا تھا ۔12بجے میرے موبائل کی گھنٹی بجی تو دیکھا خواجہ مبشر کی کال تھی میں نے ایٹنڈ کی تو انھوں نے کہا کہ والد صاحب وفات پاگئے ہیں یہ سنتے ہیں میں یک دم ہکا بکا ہوگیا کہ ابھی کچھ دیر پہلے ان سے مل کر باتیں کرکے آیا ہوں اور اب ان کی وفات کی خبر ملی ،میں نے مبشر بھائی سے پوچھا کیا ہوا تو انھوں نے بتایاکہ کھانا کھارہےتھے کہ یک دم ایک طرف کو گر گئے میرا بیٹا فوری طور پر ان کو لے کر کارڈک یونٹ کی طرف گیا جہاں ڈاکٹروں نے کہا کہ خواجہ صاحب جاچکے ہیں ان کو کارڈک اریسٹ ہوا ہے۔میں فون سننے کے بعد صوفے پر بیٹھ گیا اور مجھے 15مئی کا دن یاد آگیا جب صبح سویرے خواجہ پرویز صاحب نے کہا تھا کہ آج میو ہسپتال چلتے ہیں مجھے سانس کی پرابلم ہورہی ہے میں نےکہا اچھا جی اور پھر ہم دونوں پیدل چلتے ہوئے میو ہسپتال کی ایمرجنسی میں پہنچے تو ڈاکٹرز نے ان کا مکمل معائنہ کیا اور ٹیسٹ لکھ کر دیے مگر میں ان کو لے کر اے وی ایچ کے انچارج ڈاکٹر عدنان کے پاس لے آیا انھوں نے فوری طور پر میڈیسن کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سہیل سلہریا سے رابطہ کیا کہ خواجہ پرویز کو چیک کریں تو انھوں نے کہا کہ ان کو وارڈ میں بھیج دیں میں ان کو داخل کرلیتا ہوں جس کے بعد میں نے خواجہ صاحب کے لیے ویل چئیر کااہتمام کیا اور ان کو لے کر ڈاکٹر سہیل کے پاس پہنچا ان سے میری بھی آشنائی تھی انھوں نے خواجہ صاحب کو تفصیل سے دیکھا اور مجھے کہا کہ ان کو داخل کرلیتے ہیں میں نے کہا کہ آپ پیڈ پر لکھ دیں اے وی ایچ میں داخل کرنے کے لیے انھوں نے داخلہ کا لکھ دیا اور یوں بعد میں ڈاکٹر عدنان کی وساطت سے ہمیں اے وی ایچ کا کمرہ نمبر 21ملا وہاں شفٹ ہونے کے بعد میں نے فون کے ذریعے خواجہ مبشر کو اطلا ع دی جس کے بعد فوری طور پر ان کے بچے وہا ں پہنچے اور بعد میں ایم ایس ڈاکٹر ذاہد پرویز کے حکم پر خواجہ صاحب کو پہلے کمرہ نمبر 7 اور بعد میں وی آئی روم نمبر 1میں شفٹ کردیا گیا جہاں انھوں نے آخری سانس لی۔خواجہ صاحب سے میری شناسائی کم عمری ہی میں ہوگئی تھی اور میں اکثر اسکول یاں کالج سے واپسی پر ان سے مل کر گھر آتا تھا اور کئی سال میری یہی روٹین رہی وہ مہمان نواز شخصیت تھے اور کبھی بھی دوپہر کا کھانااکیلے نہیں کھاتے تھے ایک نغمہ نگار کے علاوہ ان کی شخصیت میں مجھے سماجی کارکن بھی نظر آتا تھا جو اپنے اردگرد کے لوگوں کے مسائل کو بھی حل کرتا تھا جس کی وجہ سے فلمی اور ان کے حلقہ احباب ان کو عزت واحترام کی نظر سے دیکھتے تھے اور وہ بھی بجا طور پر ہر کسی کی مدد کے لئے کمر بستہ رہتے تھے۔خواجہ پرویز کا اصل نام غلام محی الدین تھا اور وہ 1932ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے اور انھوں نے نصف صدی تک شوبز کی دنیا میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ انہوں نے پاکستانی فلموں میں سب سے زیادہ گیت لکھنے کا ریکارڈ بھی قائم کیا تھا اور چند باکمال قلمی شاعروں میں شامل ہوتے تھے جو اْردو اورپنجابی زبان میں یکساں مہارت سے گیت لکھتے تھے۔ خواجہ پرویزنے بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر فلم ’’گڈی گڈا‘‘ میں1956ء میں اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا تھا اور نغمہ نگار کے طور پر فلم ’’رواج‘‘(1965)ء سے سامنے آئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب فلمی شاعری پر تنویر نقوی، قتیل شفائی،مشیر کاظمی، سیف الدین سیف، طفیل ہوشیار پوری، فیاض ہاشمی، مشیر کاظمی، حبیب جالب، مسرور انور، حمایت علی شاعر، بابا عالم سیاہ پوش، وارث لدھیانوی اور حزیں قادری جیسے بڑے بڑے نام چھائے ہوئے تھے۔ ایسے میں خواجہ پرویز نے اپنی پہچان بنائی۔انہیں اصل شہرت فلم ’’آئینہ‘‘ (1966) کے مسعود رانا کے گائے ہوئے گیت تم ہی ہو محبوب میرے سے ملی ۔یہ گیت ر یڈیو کے علاوہ ہوٹلوں، بسوں اور مختلف شوقین افراد کے گرامو فون ریکارڈز پر اکثر بجتا رہتا تھا۔ اسی گیت کو آئرن پروین نے بھی گایا تھامگر اس گیت کو جو شہرت و مقبولیت مسعود رانا کی آواز میں ملی تھی اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔خواجہ پرویز کی عام فہم، سادہ اور آسان فلمی شاعری کو کچھ لوگ سستی (یا عوامی) شاعری بھی کہتے تھے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے سادہ اور سہل الفاظ ہی زبان زد عام ہوتے ہیں۔ فلمی شاعری فلم کی ضرورت اور صورتحال کے مطابق ہوتی تھی جس میں جہاں عام فہم زبان کی ضرورت ہوتی تھی وہاں ویسے ہی بول اہمیت رکھتے تھے لیکن جہاں خالص شاعری کی ضرورت ہوتی تھی وہاں خواجہ صاحب نے مایوس نہیں کیا ۔ان کے لکھے ہوئے اردو نغمات میں دل ویراں ہے، تیری یاد ہے، تنہائی ہے۔ (فلم آئینہ1966)
محفل تو اجنبی تھی، تم بھی ہوئے پرائے۔ (فلم میرا گھر میری جنت 1968)،بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں، تنہائی جنہیں دہراتی ہے۔(فلم تمہی ہو محبوب میرے 1969) ،سامنے آکے تجھ کو پکارا نہیں، تیری رسوائی مجھ کو گوارا نہیں۔(فلم درد 1969)،تیری محفل سے یہ دیوانہ چلا جائے گا، شمع جلتی رہے، پروانہ چلا جائے گا۔(فلم درد 1969) ،جب کوئی پیار سے بلائے گا، تم کو ایک شخص یاد آئے گا۔( فلم زندگی کتنی حسین ہے1969) اوراپنوں نے غم دیے تو مجھے یاد آ گیا، اک اجنبی جو غیر تھا اور غمگسار تھا۔(فلم انجان 1970)کو شہرت حاصل ہوئی مگر ان کو عالگیر شہرت پنجابی فلم انوراکے گیتوں سے ملی اور خاص طور پر ملکہ ترنم نورجہاں کے گائے ہو ا گیت سن وے بلوری اکھ والیا سپرہٹ ہوا جس کے خواجہ پرویز مکمل طور پر پنجابی فلم کے ساتھ جڑ گئے اور ایک سے بڑھ کر ایک ہٹ پنجابی گیت لکھنے لگے ۔اس گیت کے مکھڑے کے بارے میں وہ اکثر کہتے تھے کہ میری ماں مجھے بلوری اکھ والیاں کہہ کر پکارتی تھیں میں نےاسی خیال کو نغماتی حسن میں ڈھال دیا۔ملکہ ترنم نورجہاں اور خواجہ پرویز کے اشتراک سے کئی سپرہٹ گیت تخلیق کیے ایک دفعہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ملکہ ترنم نورجہاں کے لیے کتنے گیت لکھے تو توقف سے بولے شاید ایک ہزار کے قریب ۔ نغمات کے لحاظ سے ’’دھی رانی‘‘1969ء ایک بہت بڑی فلم تھی، جس میں ایم اشرف کی موسیقی میں ملکہ ترنم نور جہاں اور مسعود رانا کے ان گیتوں نے دھوم مچا دی تھی جن میںمیری چچی دا چھلا ماہی لاہ لیا ، گھر جا کے شکایت لاواں گی،وے لکھ ترلے پاویں منڈیا، وے تینوں پیار نئیں کرنا اورپٹھے سدھے بودھے واہ کے شہری بابو لنگدا، سدھی سادھی پنڈدی کڑی دا دل منگداشامل تھے ۔
1972ء کی پنجابی فلم ’’ذیلدار‘‘ بھی خواجہ پرویز کے فلمی کریئر کی ایک اہم فلم تھی جس کا ایک گیت:’’ دو دل اک دوجے کولوں دور ہو گئے، ویری دنیا دے ہتھوں مجبور ہو گئے‘‘ بہت مقبول ہوا۔یہ گیت برونا لیلیٰ کی آواز میں تھا جو اس قدر مقبول ہوا کہ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت اس گیت کے ایک لاکھ سے زائد گراموفون ریکارڈز بکے تھے۔اسی کے عشرے میں مشہور زمانہ فلم ’’سالا صاحب‘‘981ء کا یہ گیت کون بھلا سکتا ہے جو ملکہ ترنم نور جہاں کی آواز میں سپر ہٹ ہوا تھا اور جس کی دھن وجاہت عطرے نے بنائی تھی:وے اک تیرا پیار مینوں ملیا، میں دنیا توں ہور کی لینایا فلم ’’قیدی‘‘(1986)کے اس گیت کو کس طرح بھلایا جا سکتا ہے جو نذیر علی کی موسیقی میں میڈم نے گایا تھا:ماہی آوے گا میں پھلاں نال دھرتی سجاواں گی۔خواجہ پرویز کے فن کی خوبی تھی کہ ان کو دونوں زبانوں میں شعر کہنے کا ملکہ حاصل تھا اسی لیے وہ دونوں زبانوں میں بننے والی فلموں میں گیت لکھتے رہے مگر وہ پنجابی ذبان میں لکھنے کو ترجیع دیتے تھے ۔ خواجہ پرویز نے نصرت فتح علی خان کے لیے بھی شاہکار گیت لکھے جن میں سانوں اک پل چین نہ آوئے،کسے دا یار نہ وچھڑے کو شہرت حاصل ہوئی ان دونوںعظیم فن کاروں نے ایک ہی رات میں 5گیت تخلیق کیے جو آج بھی زبان زد عام ہیں ۔ برسوں قبل جب میں گنگارام ہسپتال میںاپنے بھائی وحید کے استاد ملک شعیب کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی رہا تھا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ خواجہ پرویز نے پنجابی فلم جناب عالی میں کے لیے ایک گیت لکھا جسے ملکہ ترنم نور جہاں نے گایا وہ مجھے اپنی کہانی ہی لگتا ہے اوراس نغمہ کو سن کر میں آج بھی غمزدہ ہوجاتا ہوں کیونکہ میں اپنی جوانی میں کچھ عرصہ دبئی گزار کر آیا ہوں ان دنوں میری والدہ شدید بیمار تھیں اورانھوں نے کئی بار مجھے واپس آنے کا کہا مگر میں روزی روٹی کے چکر میں ایسا پھنسا کہ واپس نہ آسکا اسی دوران میری والدہ وفات پاگئیں اور میری اجازت سے ان کی تدفین کردی گئی اور میں ان کا آخری دیدار نہ کرسکا اور اب نورجہاں کے گیت مست ہوا پورے دی کے آخری مصرعے کو سن کر روتا ہوں جو یہ ہے ـلبھ دا پھریں گا مٹی دیاں ٹھریاں ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.