فلسفہ قربانی سمجھنا ہوگا

41

شفقت اللہ مشتاق

حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو اللہ تعالی کی راہ میں قربان کرنا ہے۔ وہ صبح اٹھے اور اپنے وفاشعار اور تابع فرمان بیٹے کو قربان کرنے لے چلے۔ پھر کیا ہوا انہوں نے اپنا خواب سچ کر دکھایا اور اللہ تعالی کے ہاں سرخرو ہو گئے۔ پھر تو شیطان کو رمی جمرات کروائے جانے کا ہرسال کے لئے حکم دیا گیا پھر اللہ کے گھر میں مقام ابراہیم بنا دیا گیا۔ آگ میں ابراہیم کے گرائے جانے پر آگ کو گلزار بنا دیا گیا۔ ابراہیم کی آنے والی نسل میں کئی پیغمبر مبعوث کردیئے گئے، تلہ للجبین مسلمان بننے کی دلیل بن گئی۔ خاتم النبیین سیدنا محمد الرسول اللہ کا نسب ابراہیم میں ظہور ہوا اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ کے لقب سے سرفراز فرمایا گیا۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مناسک حج ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ترتیب دیئے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر انسان نے اپنی تخلیق کے فوری بعد اپنے خالق سے ایک عہد کیا تھا اور اس عہد کو عہد الست کہتے ہیں اور اس عہد کی بدولت ہر شخص کو ایک ضابطے کے تحت زندگی گزارنا پڑتی ہے اور اس کو اپنے مالک حقیقی کے حضور سرخرو ہونا ہوتا ہے۔ لیکن اس سارے کام کے لئے آپ کو قربانی دینا پڑتی ہے۔ اپنے جذبات و احساسات کی قربانی۔ اپنے مفادات کی قربانی۔ مال واسباب کی قربانی۔ اپنے اہل وعیال کی قربانی۔ جاہ وجلال کی قربانی اور بسا اوقات ہر چیز کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ ایسے تو نہ نواسہ رسول سیدنا امام حسین نے بیعت کے معاملہ پر ایک موقف اختیار کیا اور شریعت کے اصولوں کی پاسداری کے لئے مدینہ چھوڑا، حج پر سفر کربلا کو ترجیح دی۔ کربلا کے لق ودق صحرا میں مسلسل دس دن بھوکا پیاسا رہنا قبول کیا۔ یزیدی فوجوں کے ہاتھوں پورا خاندان ذبح کروا دیا حتی کہ اپنی جان تک دے دی لیکن بیعت کا اصل مفہوم امت مسلمہ کو سمجھا گئے۔ اسی طرح امام حسن علیہ السلام نے قوم کو خون خرابہ سے بچانے کے لئے اپنی حکومت کی قربانی دے دی۔ ایسے تو نہ یہ لوگ سید الشباب اہل جنت بن گئے۔ منزل پانے کے لئے قربانی تو پھر دینا پڑتی ہے۔ قربانی دینے کے لئے قوت ارادی ہونا چاہیئے اور تصور اور فلسفہ قربانی واضح ہونا ضروری ہے کاش ہم فلسفہ قربانی کو سمجھ جاتے۔ ہر سال حضرت اسماعیل کی یاد میں جانور قربان کرنا بنیادی طور پر ہمیں درس دیتا ہے کہ ہمارے آباء کس حد تک اپنے خالق کے ساتھ تعلق نبھانے کے لئے آمادہ ہوتے تھے۔
آج کے مسلمان کو گہرے سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ ہم نے قرآن مجید کو طاق میں رکھ دیا اور سر غیراللہ کے در پر رکھ دیا اور پھر مسجود ملائک دربدر رسوا ہو گیا۔ کہیں کشمیر میں اس کی آزادی کے حق چھین لئے گئے۔ کہیں وہ آپس میں دست وگریبان ہو کر غیروں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گیا اور اس پر فلسطین میں آگ برسائی گئی اور اس کے بھائی تماشا دیکھتے رہ گئے ۔ کیونکہ یہ سارا کچھ کرنے کے لئے بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ غیر ملکی امدادیں بند کروانا پڑتی ہیں۔ اپنے غیور راہنماؤں کی قربانی دینا پڑتی ہے۔زمانے سے قطع تعلقی کرنا پڑتی ہے اور ہر قسم کی سازشوں اور مصیبتوں کے لئے تیار رہنا پڑتا ہے۔ (عزائم جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو۔۔ طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے) گھبرانے والے لوگوں کی سوچ محدود ہوتی ہے اور ان کے آگے بڑھنے کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں اور ان کے علاقے محدود ہوجاتے ہیں۔ ان کی مملکتوں کے حصے بخرے کردیئے جاتے ہیں اور ان کو اٹی کے مل خریدا جاتا ہے۔ بھائی بھائی کا سودا کرکے بغلیں بجا رہا ہوتا ہے۔ ان کی سلطنتوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ہے اور انفرادی طور پر ہر شخص کا بینڈ بجا دیا جاتا ہے۔ متمول طبقہ اپنی آمدن بڑھانے کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
بہرحال اس دھرتی پر انسان ہی تھے جنہوں نے امن کی بات کی اور امن کے قیام کے لئے اپنے مفادات کی قربانی بھی پیش کرنے سے گریز نہیں کیا۔ دکھی انسانوں کے مداوا کے لئے اپنے اسباب کی قربانی دینے سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اپنے اعضاء بھی عطیہ کئے گئے۔ پوری پوری جائیدادیں وقف کر دی گئیں۔ ٹرسٹ قائم کئے گئے۔ پاکستان کے معروف اینکر، اداکار اور نیلام گھر کے بانی طارق عزیز نے موت سے پہلے اپنی پوری جائیداد وقف کردی تھی۔ ڈاکٹر رتفاو نے کوڑھ کے مریضوں کے علاج کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کردی تھی۔ عبد الستار ایدھی کی خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پاک فوج کے جوانوں نے اپنے ملک کے دفاع کے لئے بڑی بڑی قربانیاں پیش کی ہیں۔ تفصیل اس کے لئے علیحدہ کالم کی متقاضی ہے۔ سردست نوبل انعام کے پس منظر پر اکتفا کرتا ہوں۔ الفریڈ نوبل (1833-1896) سویڈن کے شہری تھے۔ وہ کیمیادان، انجینئر ، موجد اور سائنسدان تھے۔ انہوں نے ڈائنامائیٹ ایجاد کیا۔ وہ 355 سائنسی ایجادات کے موجد تھے۔ ان کی آخری وصیت تھی کہ ان کے جملہ اثاثہ جات کی آمدن ان لوگوں پر خرچ کی جائے جن لوگوں نے انسانیت کے لئے کوئی قابل ذکر کام کیا ہو۔ 1900 میں ایک نوبل فاونڈیشن کی بنیاد رکھی گئی اور یوں پانچ شعبہ جات میں کارہائے نمایاں سر انجام دینے والوں کو نوبل انعام دیئے جاتے ہیں۔ فزکس، کیمسٹری، میڈیسن، لٹریچر اور امن کے شعبے منتخب کئے گئے اور پوری دنیا کے لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لئے مذکورہ ایوارڈ دیئے جاتے ہیں۔ الفریڈ نوبل کا یہ ایک نوبل مقصد تھا اور جب تک نوبل ایوارڈ تقسیم کئے جاتے رہیں گے۔ نوبل مذکور کا نام لوگوں کی زبانوں پر رہے گا۔ اس طرح کے بے شمار لوگ دنیا میں کام کررہے ہیں اور دکھی انسانیت کے لئے اپنے اسباب کی قربانی دے رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی صدقات، خیرات، لنگر اور مالی امداد کا کام بلاشبہ ہورہا ہے لیکن کاش ہمارا متمول طبقہ اپنے بھائیوں کے دکھوں کو شمار کر لے اور پھر اپنے اثاثوں کا اندازہ کرلے اور پھر قربانی کے فلسفے کو سمجھے اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہو جائے تو ایک نہیں آج بھی سینکڑوں ادارے معرض وجود میں آسکتے ہیں۔ کوئی بھی بھوکا نہیں سو سکتا۔ کوئی بھی علاج کے بغیر سسک سسک کر دم نہیں توڑ سکتا۔ کسی غریب آدمی کا بچہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم ادھوری نہیں چھوڑ سکتا اور کسی باپ کی بیٹی جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بال سفید نہ کرتی۔ لیکن یہ سارا کچھ قربانی مانگتا ہے اور قربانی سے دکھوں کو سکھوں میں، آہوں کو شادیانوں میں اور خانہ جنگی کو امن سکون اور آشتی میں بدلا جا سکتا ہے۔ آئیں فلسفہ قربانی سمجھانے کی اپنے آپ کو کوشش کرتے ہیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.