بجٹ سے ریلیف کی امید نہ لگائیں

56

تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ


پاکستانی عوام وفاقی بجٹ سے ریلیف کی امید نہ لگائیں یہ میں نہیں کہہ رہا اور نہ ہی حزب اختلاف کا کوئی لیڈر کہہ رہا ہے بلکہ یہ سنہری الفاظ وفاقی وزیر اور حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے جناب احسن اقبال کے ہیں۔ انہوں نے مزید ارشاد فرمایا کہ عوام کو ریلیف دینے کیلئے مزید قرض لینے پڑیں گے ۔ پھر ان قرضوں کو ادا کرنے کیلئے نئے ٹیکس لگانے پڑیں گے ۔ حکومت کے وسائل محدود ہے۔ اپنی آمدن سے قرضوں کا بوجھ بھی نہیں اتارسکتے۔ جناب احسن اقبال کا مزید کہنا تھا کہ اگلے سال وفاقی حکومت کو 8 ہزار ارب محاصل ملیں گے جبکہ اگلے مالی سال صرف قرض میں 9 ہزار ارب روپے دینے ہیں۔ گذشتہ روز پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں پیش کئے گئے وفاقی بجٹ کا خلاصہ نکالا جائےتو صورتحال کچھ یوں بنتی ہے کہ آئندہ وفاقی بجٹ18ہزار 877ارب روپے کا ہے۔ بجٹ کے مجموعی حجم کا نصف9 ہزار 775ارب روپے قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کیلئے مختص کیے گئے ہیں۔ محصولات/وصولیوں کا تخمینہ12ہزار 970ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں صوبوں کا حصہ7ہزار 438ارب روپے رکھا گیا ہے۔ بجٹ میں ساڑھے 8 ہزار ارب روپے خسارہ ظاہر کیا گیا ہے۔ احسن اقبال جیسے اہم حکومتی رکن کی جانب سے پیش کئے گئے اقوال زریں پہلی مرتبہ دیکھنے سننے کو نہیں مل رہے۔ ریاست پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ حکومتی بینچوں اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والے اراکین اسمبلی کی سوچیں 360زاویہ کے حساب سے مختلف ہوتی ہیں۔ ہمارے سیاسی قائدین کو مہنگائی اور عوام الناس کے دُکھ درد کا احساس صرف اُسی وقت محسوس ہوتا ہے جب وہ حزب اختلاف کے لئے بنائے گئے بینچوں پر براجمان ہوتے ہیں، جیسے ہی یہی اراکین حکومتی بینچوں پر براجمان ہوتے ہیں انکے بیانات، انکے تیور انتہا درجے کے مختلف ہوتے ہیں۔ پھر نہ تو انکو مہنگائی محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی عوام کا درد دل بلکہ اکثراوقات یہ مہنگائی کا دفاع کرتے بھی دیکھائی دیتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ عرصہ دراز سے پاکستانی معیشت قرضوں کی مرہون منت چل رہی ہے۔ دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کے وزرائے اعظم آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشائی ترقیاتی بینک اور دوست ممالک سے چند ارب ڈالرز کی قرض نما بھیک ملنے پر کامیابی کے شادیانے بجاتے ہوئے جشن مناتے دیکھائی دیتے ہیں۔ کوئی قرضوں کو پیکج کا نام دیتا ہے تو کوئی قرضہ ملنے پر عوام کو خوشخبری کی نوید سناتا ہے۔ یہ قرضے لئے کیوں جاتے ہیں؟ یہ قرضے جاتےکہاں ہیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جنکا جواب شائد ہی ہم اپنی زندگیوں میں حاصل کرسکیں۔ اقتدار کے حصول کے لئے لمبی لمبی تقریریں اور انقلابی نعرےمگر بعد از حصول اقتدار عوام الناس کو منہ چڑھاتے بیانات۔ کاش ہمارے سیاستدان ووٹ لیتے وقت بھی اس طرح کی باتیں کرلیا کریں تو ہمیں سیاستدانوں کی دورنگی اور منافقت سے لتھڑی ہوئی حقیت آشکار ہونے کا افسوس نہ ہو۔ بوجود اسکے ریاست پاکستان کی عوام اس قابل ہے کہ وہ ریاست پاکستان کے اخراجات ٹیکس ادائیگی کی صورت میں برداشت کرسکتی ہے مگرہمارے وزرائے اعظم کشکول لئے دربدر گھومتے ہیں اورخیرات نما قرضوں سے مملکت پاکستان کوچلانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں ٹیکس حصولی کا نظام انتہائی پیچیدگی اور کرپشن کا شکار ہوچکا ہے۔ یہاں جو فرد ٹیکس نیٹ ورک میں شامل ہوگیا وہ رگڑا جاتا ہے اور جو ٹیکس نیٹ ورک سے باہر ہے وہ موجیں کر رہا ہے۔ ریاست پاکستان کے پاس ایسے ایسے شہکار ادارے موجود ہیں جو مملکت میں بھیڑ بکری، گائے، بھینس، اونٹ حتی کہ گدھوں کی تعداد تک بتا سکتے ہیں۔ مگرافسوس نجانے ان اداروں کو پاکستان میں موجود ایسے افراد جو ٹیکس ادا نہیں کرتے انکی معلومات حاصل کرنے میں کیا دشواری حائل ہوتی ہے؟یقین مانیں اگر پاکستان میں ٹیکس لینے اور ٹیکس ادا کرنے والے ایمانداری اور قومی جذبہ سے سرشار ہوکر کام کریں تو ریاست پاکستان کو اندرونی و بیرونی قرضوں کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ مگر افسوس حالت ایسی ہے کہ یہاں ٹیکس وصول کرنے والے اداروں میں پائی جانے والی کالی بھیڑیں آپکو ٹیکس، کسٹم ڈیوٹیوں سے بچانے کے لئے نت نئے طریقے سیکھاتے دیکھائی دیں گی۔ چونکہ ہماری سیاسی لیڈرشپ کے لئے ٹیکس اصلاحات کا نفاذ اور اداروں میں پائی جانے والی کالی بھیڑوں پر ہاتھ ڈالنے کی توفیق اور ہمت ہی نہیں ہے لہذا ہماری سیاسی لیڈرشپ کے لئے سب سے آسان حل قرضوں کے حصول کے لئے تگ دو کرنا ہی رہ گیا ہے۔ رہی سہی کسر ہمارا نظام انصاف پوری کردیتا ہے جہاں اربوں روپے کے ٹیکسوں پر عدالتی حکم امتنائی سالہاسال تک جاری ہوجاتے ہیں۔ ریاست پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ صحیح معنوں میں ٹیکس کے گن چکڑ کا شکار ہے۔ اس طبقے کو تو تنخواہ ہی انکم ٹیکس کٹوتی کے بعد ملتی ہے پھر باقی ماندہ تنخواہ کیساتھ اشیاء کی خریداری کے وقت سیلز ٹیکس کی ادائیگی بھی کرنا پڑتی ہے۔ افسوس اور شرمناک حقیقت تو یہی ہے کہ ریاست پاکستان کو ٹیکس تو یورپین ممالک کی طرز پر درکار ہیں مگر سہولیتیں اور حفاظت افریقہ یا افغانستان جیسی ریاست کی طرح۔ آج پاکستانیوں کی حالت صرف اور صرف ریاست پاکستان کو پالنے جیسی رہ گئی ہے ۔ معاشی بدحالی کے شکار پاکستان میں مہنگائی سے مری ہوئی عوام پر مزید ٹیکسوں کا اطلاق کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہے گا مگر افسوس پاکستان کو قرضوں اور معاشی بدحالی میں مبتلا کرنے والوںکو کوئی نہیں پوچھے گا کیونکہ آج کی اپوزیشن کل کی حکومت اور کل کی حکومت آج کی اپوزیشن بنتی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.