تعلیم کے بغیر ترقی ناممکن ہے

68

بجٹ میں تعلیم کو چار فیصد دو ۔۔۔۔ پاکستان کو سنوار دو
محمدشاہنواز خان


پاکستان اس وقت جس طبقاتی تقسیم کا شکار ہے۔جس نے تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے وہاں طبقاتی نظام تعلیم نے غریب پر ترقی کے دروازے بند کر دیے تھے۔
ایک طرف تو ہم تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں۔آج بھی ال گزر جانے کے ہماری شرح تعلیم انتہائی کم ہے –
دوسری جانب پاکستان میں طبقاتی نطام تعلیم نے غریب پر ترقی کے دروازے بند کر دیے ہیں۔
ملک میں کئی طرح کے نظام تعلیم رائج ہیں۔طبقاتی نظام تعلیم کی وجہ سے ملک کے اکثریت عوام کو ترقی کی دوڑ سے باہر کر دیا ہے۔مخصوص طبقے کی بچوں کے علیحدہ نظام تعلیم اور سکول ہیں۔
وڈیرو جاگیرداروں،سرمایہ داروں سیاست دانوں افسر شاہی کے بچوں کے لئے علیحدہ نظام تعلیم اور سکول ہیں،مڈل کلاس کے لئے دوسرا نظام اور سکولز،غریب کے بچوں کے سرکاری سکولز
جب تک سب پاکستانیوں کے لئے ایک سا نصاب اور نظام تعلیم نہیں ہوگا۔ہم برابری کی بنیاد پرترقی نہیں کر سکتے
جن قوموں نے دنیا میں ترقی کی ہے تعلیم ان کی سب سے اہم ترجیہات میں شامل ہوتی ہے۔
آج دنیا کے نقشہ پر جتنے ترقی یافتہ ممالک موجود ہیں ان کی ترقی کی بنیاد یکساں تعلیی نظام ہے۔لیکن افسوس تعلیم شائدہماری کسی حکومت کی ترجیہات میں شامل نہیں رہی
اگر تعلیم ہماری ترجیہات میں کہیں شامل ہوتی توآج پاکستان کی یہ صورتحال نہ ہوتی۔
قیام پاکستان سے آج تک ہم نے اپنی قومی پیداواری بجٹ کا دو فیصد سے کم تعلیم پر خرچ کیا ہے۔
جبکہ آئین پاکستان کے شق 25-Aکے مطابق پانچ سے 16سال تک کے بچوں کی معیاری اور لازمی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہو تا ہے جہاں شرع خواندگی سب سے کم ہے۔
عالمی سطح پر کیے گئے وعدوں اور دباؤ کے باوجود ہم تعلیم کے شعبہ میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں کر سکے۔
گزشتہ دس سال سے پاکستان بد ترین دہشت گردی کا شکار رہا۔
جس سے مقابلہ کے لیے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا ہے۔
ہماری بہادر افواج ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں سے بر سر پیکار ہے۔
ہم اگرمجموعی طور پر جائزہ لیں تو دیکھتے ہیں کہ دہشت گردی کی جڑیں ان علاقوں میں مضبوط ہیں جہاں تعلیم کی جڑیں کمزور ہیں۔
اسی طرح جنوبی پنجاب میں ان اضلاع میں فرقہ واریت اور نفرت کی جڑیں مضبوط ہیں جہاں شرع خواندگی کم ہے۔
لیکن ابھی تک ریاست نے اس بات کو محسوس نہیں کیا کہ تعلیم کو عام کیے بغیر
ہم دہشت گردی کو ختم نہیں کر سکتے۔ہماری کسی حکومت کی ترجیح میں تعلیم بنیادی حیثیت میں شامل نہیں رہی۔
اس بات کا ثبوت یہ ہے
کہ کسی حکومت نے کل بجٹ کا2سے 2.5 فیصدسے زائدکبھی تعلیم کے لئے مختص نہ کیا۔
پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں آج تک ہمارا تعلیمی بجٹ ۳ فیصد نہ ہوسکا۔
یہ ایک قومی المیے سے کم نہیں۔ہمیں ہر حالت میں اپنے تعلیمی بجٹ کو چار فیصد کرنا ہوگا
اور اس کے استعمال کو بھی یقینی بنانا ہوگا تب جاکر ہمارے مالی حوالے سے مشکلات کم ہوسکیں گی۔
کیونکہ بجٹ کی کمی کی وجہ سے سرکاری تعلیمی اداروں کی صورت حال انتہائی ابتر ہے
جن میں اس ملک کے سب سے غریب لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں۔
ان سکولوں کے اساتذہ تک اپنے بچوں کو ان سکولوں میں پڑھنا پسند نہیں کر تے۔اس ملک کی
غریب عوام اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کی خواہش کرتے ہیں لیکن پوری نہیں کر پاتے
کیونکہ ان میں سکت نہیں کہ بھاری فیسوں والے پرائیوٹ سکول میں اپنے بچے داخل کراسکیں۔
ان کے لئے سرکاری سکول ہیں جہاں نہ بلڈنگ اچھی ہے نہ فرنیچر ہے اور نہ ہی اساتذہ پڑھانے پر تیارہیں۔
اساتذہ کے بیٹھنے کے لئے فرنیچر تک نہیں تو بچوں کے لئے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بجلی اور پنکھے
تو شاید کچھ سکولوں میں ہو، ورنہ کئی علاقوں میں آج بھی درختوں کے نیچے تعلیم دی جارہی ہے۔
بڑے بڑے شہروں کے سرکاری سکولوں میں بچوں کے لئے فرنیچر کا مناسب انتظام نہیں۔
تو دور دراز دیہاتوں کی حالت کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔جب تک یہ نظام تبدیل نہیں ہو تا کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔
پنجاب میں اچھی طرز حکمرانی کی بات کی جاتی ہے
ذرا پنجاب میں تعلیی اداروں کی صورتحال کا جائزہ لیں تواقوام متحدہ ہزارے اہداف کے مطابق2015 تک
دس سال یا زیادہ عمر کے 88 فیصد افراد کو خواندہ ہونا چاہیے تھا۔
لیکن پنجاب کے اعدادوشمار کے مطابق یہ شرح تقریبا 59 فیصد بتائی گئی ہے

اب ایس ڈی جییز ۲۰۳۰ میں ہم تعلیم کا ہدف ۱۰۰ فیصد حاصل کر نا ہے ہر بچے کو معیاری
تعلیمی سہولیات فراہم کرنی ہیں
تعلیم کے اعتبار سے پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں بھی زیادہ تر جنوبی پنجاب کے اضلاع ہیں۔
ڈیرہ غازی خان،مظفر گڑھ،راجن پور،بہاولپور،بھکر ایسے اضلا ع ہیں جہاں 60 فیصد سے زیادہ لو گ ناخواندہ ہیں
ان اضلاع میں شرح خواندگی 34 سے 40 فیصد تک ہے جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے شہر
ملتان کی شرح خواندگی50 فیصد ہے۔
17%تعلیمی اداروں کی عمارتیں خستہ ہیں۔19%بجلی سے محروم ہیں 5%فیصد لیٹرین کی
سہولت نہیں 8%تا حال چاردیواری سے محروم ہیں۔44%بچے سکولوں سے باہر ہیں۔
سکول چھوڑنے کی شرح 32%فیصد ہے۔43%فیصد بچے پرائیوٹ سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔15%فیصد
ایسے سکول ہیں جہاں صرف ایک استاد ہے۔
پنجاب میں تعلیمی اعتبار سے سب سے پسماندہ پہلے پانچ اضلاع میں ضلع راجن پور،ڈی جی خان،مظفرگڑھ،بہاولپور،رحیمیارخان ہیں۔اور انہی اضلاع میں سب سے زیادہ فرقہ واریت اور
دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں۔ہمیں سوچنا ہوگا کے کس طرح ہم علم سے ظلم کو ختم کر سکتے ہیں
اس وقت اعدادو شمار کے مطابق دیہی علاقو ں میں ہماری شرح خواندگی 50 فیصد
جس میں خواتین کی خواندگی کی شرح 35 فیصد یعنی آ ج بھی ہمارے ملک میں 65 فیصد خواتین
پڑھنا لکھنا نہیں جانتی۔آبادی سے زائد خواتین آج بھی زیور تعلیم سے محروم ہیں دوسری جانب 35 فیصد سے زائد مرد حضرات آج بھی نا خواندہ ہیں ایسی صورتحال میں ہم ترقی کی منزلیں کیسے طے کرسکتے ہیں
ہمیں پسماندی اور جہالت کی دلدل سے نکلنے کیلئے ٹھوس بنیادوں پر شرح خواندگی بڑھانے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔
ہمارے ملک کی دیہی آبادی جو 66 فیصد ہے
وہاں شرح خواندگی بڑھا نے کیلئے دیہی علاقوں میں خواندگی مراکز قائم کرنا ہوں گے۔
بالغ افراد کو خواندہ کرنے کیلئے تعلیم بالغاں کے مراکز قائم کرنا ہوں گے اور اس جدوجہد کو
ہم سب نے مل کر آگے بڑھانا ہے سب کو آگے آنا ہوگا۔کیوں کہ سب اپنے ملک کو ترقی یافتہ ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور ترقی کا خواب اُس وقت شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے جب ہمارا معاشرہ زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو۔
اور یہ ذمہ داری تنہا طور پر ریاست پوری نہیں کر سکتی۔اِس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے فرد کو بھی آگے آنا ہوگا۔
سماجی تنظیموں اور اداروں کو فرض پورا کرنا ہو گا۔کوئی بھی فرد تعلیم سے محروم نہ ہو
کوئی بھی فرد ناخواندہ نہ رہے۔ہمیں اگر ہم دہشت گردی سے فتح حاصل کر نا چاہتے ہیں
تو ہمیں جہالت کے خلاف بھی جنگ کرنی ہوگی اس لئے ریاست کو اپنی ترجیح میں تعلیم کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔
زیادہ سے زیادہ بجٹ تعلیم کے مختص کر نا ہوگا۔دوسرا بڑا اور اہم قدم یہ کہ
ہمیں طبقاتی نظام تعلیم کو دفن کرنا ہوگا۔ملک میں یکساں نظام تعلیم نافذ کرنا ہوگا
سرکاری سکول اور بڑے بڑے پرائیوٹ سکولوں کا نصاب ایک ہو۔ کسی کو یہ اجازت نہ ہو کہ
وہ اپنی مرضی کا نصاب پڑھائے۔
یوں سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کرنے والا عام آدمی اعلی درسگاہ کے بچے کا
ہر سطح پر مقابلہ کے قابل ہوگا۔
اس کے ساتھ ساتھ تمام منتخب ارکان اور افسر شاہی کو پابند بنایا جائے
کہ ان کے بچے صرف سرکاری سکولوں میں پڑسکیں گے۔

08/06/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/06/p3-1-1-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.